سوات کا قابل ستائش تاریخی آپریشنِ راہ راست

taliban_reuters_terrorism in pakistan سیّد نا صررضا کاظمی
آج کی پُرامن وادی ِٗ مینگورہ جسے سوات جنت نظیر بھی کہا جاتا ہے آج سے 6 برس قبل2009کو یہ وادی ‘یہ شہر سوات بہیمانہ دردندگی کا گڑھ تھا ،اِس شہر کے مرکزی چوک میں چلتے پھرتے بے گناہ اور معصوم انسانوں کو دن دھاڑے قتل کردیا جاتا تھا اُن کے مردہ جسموں سے اُن کا سر کاٹ کر اِس چوک میں اُن سرکٹی لاشوں کو ٹانگ دیا جاتا تھا انسانیت کی سفاکانہ بربریت کے یہ دوڈھائی برس اہلِ سوات پر 16 ؍ مئی 2009 سے قبل قیادتِ کبریٰ سے کم نہ تھے ملا فضل اللہ جسے عرفِ عام میں ’ملا ریڈیو‘ بھی کہا جاتا تھا اُس کے ظالم وسفاک اور اَن پڑھ جنونی انتہا پسند کارندے ویڈیو شاپس اور ہیر کٹنگ کی دکانوں کو سر عام جلاتے لوٹتے پھرتے تھے مئی 2009 سے قبل سوات شہر میں ہیر کٹنگ کی کوئی ایک دکان کہیں دیکھنے کو بھی نہیں ملتی تھی یوں معلوم ہوتا تھا جیسے سوات شہر میں جنگل کا قانو ن نا فذراتیں تو رہیں ایک طرف سوات میں دن بھی سوگوار گزرتا تھا اہلِ سوات کے شہری ہمہ وقت سہمے رہتے چونکہ ملا فضل اللہ کے جنونی کارندے محلے محلے جھانکتے پھرتے جس گھر میں اُنہیں معلوم ہوجاتا کہ اِس گھر میں کوئی جوان نوعمر لڑکی موجود ہے تو ملا فضل اللہ کو اطلاع دی جاتی جو اپنے اہم کارندوں کے ہمراہ اُس گھر میں زبردستی گھس جاتا اور اُن کے کمزو ر اور بے بس والدین کو فی الفور اِس با ت پر مجبور کیا جاتا کہ اِس لڑکی کی عمر شادی کو پہنچ چکی ہے لہذاء اپنے ہی کسی جنونی ہوس کار کارندے سے اُس موقع پر ’نکاح ‘ پڑھا دیا جاتایہ ایک گھر کی کہانی نہیں ہے ایسے بے شمار واقعات آج تک سوات کے شہریوں کے علم میں ہیں ’ملا ریڈیو‘ ملا فضل اللہ اپنے غیر قانونی ایف ایم ریڈیو کے ذریعے قرآنِ حکیم فرقان مجید کی آیات کا ترجمہ اپنی ناقص عقل کے ذریعے خود کرتا اُس نے آفاقی دینِ اسلام کی شکل بگاڑنے جیسے ’شیطانی عمل ‘ کرنے میں بڑی بدنام شہرت حاصل کی یہ کل کی بات ہے جس کی شہادت آج سے 6 برس قبل کے سوات کا ہر ذی شعور باشندہ اور مستقل رہائشی بخوبی دے سکتا ہے ملا فضل اللہ نے اللہ تعالیٰ کے قانونِ مساوات میں دخل اندازی کرتے ہوئے صنفی امتیاز کے شیطانی بت تراشے ‘ لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر سوات میں کئی سو سرکاری اور نجی اسکولوں کو بموں سے تباہ کردیا گیا لڑکیوں اور عورتوں کا باہر نکلنا بند کردیا تھا جو بھی اُس کے حکم کی سرتابی کرتا اُسے سوات کے مرکزی چوک میں قتل کردیا جاتا سوات ضلع ما لاکنڈ کا مرکزی شہر ہونے کی بناء پر اِس بد حالی اور بد انتظامی کے ساتھ ساتھ ظالم وسفاک قاتلوں کے نرغہ میں جب مکمل طور پر آگیا تو اِس کے اثرات دیر اور جنوبی وزیر ستان کے قبائلی علاقوں تک جا پہنچے یہ سارا کا سارا پختون علاقہ ملا فضل اللہ کی ذاتی جاگیر بننے لگا خیبر پختونخواہ کے سبھی سرکاری اہم دفاتر اور ڈسٹرکٹ عدالتیں بند ہوگئیں تھانے بند ہوگئے پولیس علاقہ چھوڑ گئی یہاں تک کہا جاتا ہے کہ مالا کنڈ کے اعلیٰ سول افسران نے بھی اپنی جانیں بچانے کے لئے ملا فضل اللہ کی ’بیعت ‘ کر لی تھی اور سفاک درندہ صفت دہشت گردوں کے سرپرست ملا فضل اللہ نے سوات شہر میں خونریز انارکی پیدا کرکے شہر کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا سیاسی حکومت کی آئینی اتھارٹی کو بے بس ولاچار کردیا تھا اور قبائلی علاقوں کی سرکش غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کالعدم ٹی ٹی پی میں اپنے آپ کو ضم کردیا یوں اِن کاخیال تھا کہ اُن کی آئین شکنی کے بڑھتے ہوئے قدموں کو کوئی نہیں روک پائے گا یہ اِن کا صرف ’خیال ‘ تھا وقت نے پھر خود نظارہ کیا کہ پاکستان کی عسکری قیادت متحرک ہوئی اُس وقت کی صوبائی حکومت کے ساتھ آئینی مشاورت کے بعد پاکستانی فوجی قیادت نے یہ اہم فیصلہ کیا کہ اب معاملات وہ خود اپنے ہاتھ میں لے گی ،16 مئی2009 کوسوات میں ’ آپریشن راہ راست ‘ کا اہم اور دوٹوک عسکری فیصلہ بروقت ’فیصلہ ‘ ثابت ہواپاکستانی فوج نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اپنی خصوصی نگرانی میں2 لاکھ60 ہزار خاندانوں کو ایک منظم حکومتِ عملی کے تحت باحفاظت پہلے سوات شہر سے باہر نکالا گیا، اِنہیں خیبر پختونخواہ کے پُرامن علاقوں کے عارضی رہائشی کیمپوں میں رکھا گیا، ہر روز اِن کیمپوں میں آنے والے نئے خاندانوں کا باقاعدہ ڈیٹا رکھا جانے لگا‘ ایک معینہ مدت کے لئے یہ عارضی رہائشی کیمپ قائم گئے تھے عالمی ادارے اقوامِ متحدہ کی نگرانی بھی جاری تھی، IDP’s کی اِتنی بڑی تعداد غالباً دنیا کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان میں فوج کی نگرانی میں کی گئی اور پھر پاکستانی فوج نے سوات شہر اور اَس کے گردونواح میں جراّت ‘ بہادری ‘ دلیری اور دوبدو مقابلے کی ایک ایسی انمٹ تاریخ رقم کی جس کی مثال دنیا میں شائد ہی کہیں دیکھنے کو ملے جب پاکستانی فوج دہشت گردوں کا صفایا اور قلع قمع کرتے ہوئے شہر میں داخل ہوئی تو ملکی وعالمی میڈیا کے ہنگامی نوعیت کے وقوع نگار بتاتے ہیں کہ ملا فضل اللہ جیسے سفاک درندہ صفت دہشت گردوں نے سوات کا حسن ملیامیٹ کرکے رکھ دیا تھا، کوئی اسکول باقی بچا تھا نہ سرکاری دفاتر ‘ عبادت گاہوں کا خیال رکھا گیا نہ مقامی پولیس کے تھانے ‘سب کچھ جلا کر بمبار کرکے خاکستر کردیا گیا، الغرض 16 ؍مئی2009کے بعد ایک شہر کی مکمل پُرامن آبادی کے انخلاء کے بعد اُس خانماں برباد شہر کی رونقیں بحال کرنے کی جانب توجہ دی پاکستانی فوج نے اپنے بہترین پیشہ ورانہ حسن انتظام سے دیکھتے ہی دیکھتے ایک طرف دہشت گردو ں کا تعاقب جاری رکھا فوج کے دوسرے شعبوں مثلاً انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ نے سڑکوں اور اندرونِ شہر کے پلوں کی سریع الحرکت تعمیرات مکمل کیں سوات کا مواصلاتی رابطہ جو دہشت گردوں نے تباہ کیا تھا اُسے بحال کیا گیا اسکولوں کی دوبارہ تعمیر ہوئی خصوصاً لڑکیوں کے اسکولوں کی تعمیر پر خاص توجہ مرکوز کی گئی یقیناًیہ بات آنے والی تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھی جائے گی کہ پاکستانی عسکری قیادت نے اُس وقت کے آرمی چیف (ریٹائرڈ) جنول اشفاق پرویز کیانی کی ذاتی کوششوں سے’’ معینہ وقت‘‘ سے قبل 2 لاکھ60 ہزار خاندانوں کو واپس سوات شہر بھیجا گیا یہ انتہائی غیر معمولی عسکری کارنامہ تھا جس پر پاکستانی عسکری قیادت اور فوجی جوانوں اور افسروں کو قوم ہمیشہ خراجِ عقیدت و خراجِ تحسین پیش کرتی رہے گی’ آپریشنِ راہ راست ‘ میں سوات کے کئی ہزار معصوم اور بے گناہ شہریوں ‘ پولیس اہلکاروں اور سول فورسنز سمیت ملکی افواج کے افسروں اور جوانوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا جو ہمار ی قومی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ہم اپنے اُن سول اور فوجی سیکورٹی اداروں کے شہداء کو کبھی نہیں بھول سکتے جنہوں نے مالاکنڈ ڈویژن میں کیئے گئے آپریشنِ راہ راست میں حصہ لیا اور جو 16 ؍ مئی2009 سے قبل کالعدم ٹی ٹی پی کے وحشی اور درندہ نما سفاک و ظالم دہشت گردوں کے ستم کا نشانہ بنے، آج سوات وادی ِٗ مینگورہ امن کی بے مثال وادی کہلاتی ہے، ہر روز صبح وہاں ملک بھر کے تعلیمی اداروں کی طرح تعلیمی ادارے کھلتے ہیں ‘ سوات کے بازاروں کی رونقیں دوبارہ نکھر آئی ہیں پاکستانی فوج نے سوات میں کیڈٹ کالج قائم کردیا ہے اِس کے علاوہ پاکستانی فوج کی خصوصی نگرانی میں سوات میں ’ متاثرینِ انتہا پسندی کی فکری تبدیلی ‘ کے لئے ایک بڑا اہم ادارہ قائم کیا ہے جہاں پر ایسے معصوم بچوں اور نوعمر جوانوں کی فکری تنظیمِ نو کی جاتی ہے جنہیں پہلے گمراہ کیا گیا تھا جو آپریشنِ راہ راست کے دوران پاکستانی فوج کے ہاتھ لگے تھے اب یہ نوجوان اپنی اہلیت کے مطابق دوبارہ شاہراہ ِٗ زندگی پر رواں دواں ہونے کے قابل بنائے جارہے ہیں۔

 

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top