اُوبامہ کی بھارت یاترا۔’ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے ‘

 سیّد ناصررضا کاظمیObama visit
’ نریندر مودی کا بھارت‘ کمزور عزتِ نفس اپنا احترام نہ کرنے اور اپنی اوقات نہ جاننے کے راستے پر چل نکلنے والا ایسا’ڈرائیورنما دیش‘ بن چکا ہے، جس کا ’اسٹیر نگ‘ کئی نوع کی ’انّاؤں‘ نے آجکل بڑی مضبوطی سے تھاما ہوا ہے نئی دہلی میں فیصلے کسی قابلِ قدر قومی امور کی انجام دہی کے لئے نہیں ہورہے نریندرمودی کی سربراہی میں یہ فیصلے آ ر ایس ایس کی دیرینہ جنونی ہندوتوا کی ’انّاؤں‘ کی تسکین کے لئے خوب ٹھوک بجا کر کیئے جارہے ہیں پڑوسی ملکوں کو ڈرانے ‘ دھمکانے ‘ اُنہیں خوف زدہ کیئے رکھنے کی ’ہندوتوا ‘ کی صدیوں کہنہ روایات ہیں جنہیں بروئےِ کار لانے کے لئے دیش کے اندر کی ناکامیوں کو چھپانے کی خاطر ’اَن جانے خوف ‘ کی چیخ وپکار کے ذریعے دنیا ‘ طاقتور مغربی دنیا کے سُر خیل امریکا پر ضرورت سے زیادہ تکیہ کرنا شروع کردیا ہے نریندر مودی کے بھارت نے ‘ امریکا نے بلاآخر بھارتی منت سماجت کے بعد ’روٹین ‘ کی کارروائی میں باراک اُوبامہ کا ایک دورہ بھارت کا بھی شیڈول کردیا جس سے بھارت علاقہ بھر میں پھولا نہیں سما رہا 26 ؍ جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ کی تقریب میں صدر اُوبامہ نے شرکت کی ‘ بھارتی سیاسی وسماجی شخصیات سے ملاقاتیں کیں ایک دومقامات پر تقاریر کرڈالیں اپنی تقریروں کے دوران پاکستان پر چند الزامات عائد کیئے نام نہاد ممبئی سانحہ کا تذکرہ کردیا باقی پاکستان کے تاریخی تنازعات پر ایک لفظ تک نہ کہا نہ مقبوضہ جموں وکشمیر کا ذکر کیا نہ ہی بھارت میں پاکستان مخالفانہ سرگرمیوں پر کوئی مفاہمانہ بات کی حد تو یہ ہے کہ اُوبامہ نے عالمی انصاف کے ا صولوں کو بھی کسی خاطر میں نہ رکھ پائے مطلب یہ اُنہوں نے نہ تو سانحہِ سمجھوتہ ایکسپریس میں ملوث ملزمان کے بارے میں کوئی بات کی نہ مالیگاؤں بم دھماکے کی تفتیش پر کوئی ایک جملہ کہا اُنہیں بھارت کی دلجوئی کرنی تھی سو اُنہوں نے کی اور واشنگٹن واپس ہو لیئے پڑوسی ملکوں کو دکھانے کے لئے کچھ ایٹمی سمجھوتوں کی تصاویر ضرور جاری ہوئیں جن کی صداقتیں ہنوز مشتبہ سمجھئے گا یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ بھارت دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے اپنے لئے ’مشکلات ‘ بلکہ اجتماعی مشکلات کے پہاڑ اپنے کندھوں پر اُٹھارکھے ہیں بڑا رونا دھونا ہوا ہے اوبامہ کے سامنے ‘ اور کچھ نہیں ہوسکتا تو کسی طرح سے بھارت کو نیو کلیئرز سپلائی گروپ کی رکنیت ہی دلا دی جائے اگر یہ نہیں ہوسکتا تو ’خصوصی استثنیٰ ‘ دلوادیا جائے ؟ مگر یہ کیسے دلوایا جاسکتا ہے یہ کوئی ’پیٹرول کی ڈیلنگ ‘ کا پرمٹ تو ہے نہیں جو فی الفور مسٹر اُوبامہ اپنے کوٹ کی جیب میں لیئے پھرتے ہوں بھارت ہی وہ ملک ہے جس نے اپنی سامراجی انّاؤں کی تسکین کے لئے جنوبی ایشیا کو مہلک اور خطرناک ایٹمی ڈیٹرنس کا خطہ بنادیا 1974 سے1998 تک اُس نے ہیروشیما اور ناگاساکی ایٹمی تباہی وبربادی سے سبق حاصل کرنے کی بجائے وہ راہ اختیار کی جس راہ کا سنگ میل ایٹم بم سے جل بھن کر بھسم ہونے والے لقمہ ِٗ اجل بننے والوں کا پتہ دیتا ہے، جو بھارت نے کیا اُس کے جواب میں پاکستان نے اپنے دفاعی حق کے لئے اپنے ’تحفظ کا حق ‘ استعمال کیا ہے ذرا سوچئیے مئی 1998 میں اگر پاکستان کے پاس بھارتی ایٹمی ڈیٹر نس کا جواب دینے کی طاقت وقوت موجود نہ ہوتی تو پھر پاکستان کے ساتھ کیا ہوتا ؟بھارت کی پاکستان مخالفت کی ہر ایٹمی خواہش پاکستان مخالف دنیا کے سرآنکھوں پر ‘مگر یاد رہے، پاکستان بھی اب ایک بھرپور ایٹمی و میزائل ٹیکنالوجی کا حامل آزاد وخود مختار اقوامِ متحدہ کا رکن ملک ہے دنیا کی ایٹمی پالیسیوں کا پاسدار ملک ہے پاکستان نے ایٹمی ومیزائل ٹیکنالوجی سے خود کو لیس کرکے جنوبی ایشیا ئی ملکوں میں ’امن ‘ کی راہ واضح کردی ہے ’بھارتی خواہش‘ چاہے کتنا ہی زور لگا لے وہ پاکستانی ایٹمی ڈیٹرنس کے بھیانک اور ڈراونے خوف کے حصار سے کبھی ایک قدم باہر نہیں نکال سکتی ‘ مگر ہاں ! جہاں تک بھارت اور سیاسی وسفارتی سامراجیت کی خواہشات ہیں وہ اپنی چیخ وپکار جاری رکھے مہذب دنیا اُنہیں سنتی رہے گی اُس کی سیاسی وسفارتی ضروریات کب پوری ہونگی جب وہ اپنے سبھی پڑوسی ملکوں کے لئے ’قابلِ قبول ذمہ دار ‘ ملک نہیں بن جاتا پاکستان نے کل بھی بھارت کو نیوکلئیر سپلائرز گروپ کی طرف سے رکنیت دینے کے لیے یا خصوصی استثنیٰ دینے کی مخالفت کی تھی آئندہ بھی کرتا رہے گا جہاں تک بھارت کے امریکا کے ساتھ تعلقات بڑھ رہے ہیں پاکستان کو اِسے کوئی غرض نہیں لیکن پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دیتا ہے جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں اسٹر ٹیجک استحکام اور توازن کے لیے پاکستان اپنا تعمیری کردار ادا کر تا رہے گا بھارت سلامتی کونسل میں کسی خصوصی مرتبے کے حصول کا جو ہمہ وقت متمنی بننے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اُس کی یہ خواہش عالمی اُصولوں کی کھلی خلاف ورزی کہلائی جائے گی چونکہ جنوبی ایشیا میں بھارت کے ساتھ تقریباً تمام اہم ممالک کے سرحدی تعلقات کئی برسوں سے کشیدہ چلے آرہے ہیں خصوصاً خطہ کے اہم ملک پاکستان کے ساتھ اپنے دیرینہ سنگین سرحدی تعلقات کو معمول پر لانے میں کبھی بھارت نے نہ سیاسی طور پر نہ ہی سفارتی سطح پر کوئی ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی کوشش کیُ مثلاً تنازعہ ِٗ کشمیر
پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد میں کوئی پیش رفت کی اِس سنگین ‘ نازک اور حساس معاملے پر پاکستان کے ساتھ بامقصد مذاکرات پر ہمیشہ بھارت نے حیلے بہانے کیئے طے شدہ مذاکرات کو بلا وجہ منسوخ کیا ایسی صورت میں پاکستان کیوں چاہے گا کہ بھارت جیسے ’متنازعہ ملک ‘ کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں کوئی نشست دی جائے یا اُسے نیو کلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت یا اِس حوالے سے کوئی خصوصی استثنیٰ حاصل ہو جائے یقیناًبھارت کی یہ خواہش ‘ یہ آرزور اُس وقت تک ایک ’خواب ‘ کی حیثیت ہی رہے گی جب تک وہ پاکستان جیسے اہم اصٹرٹیجک ملک کے ساتھ دیرینہ مسائل بشمول مقبوضہ جموں وکشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں کے عین مطابق حل نہیں کرتا ایک ارب سے زائد آبادی کی واضح بڑی اکثریت کو جہاں بھوک ‘ افلاس اور انتہا کی غربت کے ساتھ صحت کی بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کا سامنا ہے وہ دیش اب تک 250 ؍ارب روپے کے مہلک ایٹمی ہتھیاروں کے انبار جمع کرنے کے انسانیت کش منصوبے بنارہا ہے بھارت اپنے مہلک جوہری ہتھیاروں کی پوشیدہ کھیپ کو مزید اور زیادہ دن دنیا سے چھپانے میں کامیاب نہیں ہوگا جبھی تو اِس بار امریکی صدر نے ہندوجنونی انتہا پسند بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ کوئی ٹھوس ‘ موثر اور بامقصد ایٹمی معاہدہ نہیں کیا جو کچھ دنیا نے دیکھا اصل میں وہ نہیں ہے جو بھارتی عوام کو سمجھایا جارہا ہے بس یوں سمجھ لیجئے کہ امریکی صدر اُوبامہ نے اپنے دورہ ِٗ نئی دہلی کے دوران نریندر مودی کو سفارتی ’جُل ‘ دیا اِس معاملے میں مسٹر اُوبامہ سابق صدر بش جونیئر سے زیادہ سمجھ دار ثابت ہوئے جبکہ نریندر مودی ہاتھ ملتے رہ گئے حالیہ صدر امریکا مسٹر اُوبامہ کے دورہ ِٗ بھارت کے بعد ہوٹل کے ویٹر کی یہ آواز سب کو صاف سنائی دے رہی ہے ’کھایا پیا کچھ نہیں ۔گلاس توڑا بارہ آنے ‘۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top