بلو چستا ن کی ترقی روکنے کے لیے بلو چ ذیلی قوم پر ستو ں کی بلوچ کُش سازشوں کے خلاف بڑھتی ہوئی آگاہی

[urdu]

افتخار حسین

ڈاکٹر جمعہ خان مری نے ماسکو میں یہ اعلان کیا ہے کہ وہ بلوچستان کی علیحدگی پسندی کی تحریک سے الگ ہورہا ۔ اس موقع پر ڈاکٹر جمعہ خان مری نے مہران بلوچ ،حربیار مری اور براہمداغ بگٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایااور انھیں بکاوٗ لیڈرکہا اور ان کی کوششوں کو دھوکہ دہی پر مبنی قرار دیا ۔ اس موقع پربات کرتے ہوئے ڈاکٹر جمعہ خان نے بتایا کہ وہ گزشتہ دو دہائیوں سے علیحدگی کی اس نام نہاد تحریک کا سرگرم رکن رہا اور علیحدگی پسندی کےلیے جو جھنڈا ستعمال کیا جارہا ہے وہ اسی نے ڈیزائن کیا تھا۔بلاشبہ ڈاکٹر جمعہ خان مری کا علیحدگی پسندی کی تحریک سے الگ ہونا ایک خوش آئند امر ہے اور یہ پاکستان کی حکومت اور مسلح افواج کی کوششوں کی کامیابی کو ظاہر کرتا ہے۔بلوچوں میں علیحدگی پسند قوم پرست رہنماوں کے خلاف بڑھتی ہوئی اس آگاہی میں کار فرما عوامل کا جائزہ لیتے ہیں جن کی وجہ سے یہ رہنما تیزی سے غیر مقبول ہو رہے ہیں اور بلوچستان میں ان کے خلاف ایک شدید فضا ء قائم ہوچکی ہے۔بلوچستان کے یہ علیحد گی پسند ررہنما ہی دراصل غر یب بلو چ عوا م کے مصا ئب اور صو  بے کی پسما ندگی کے   ذمہ داری  ہیں ۔ یہ نام نہا د قو م پر ست رہنما ، سر دار اور مَلک کئی سا لو ں سے  بلو چستان کی دولت اور وسائل لو ٹ رہے ہیں اور اپنے جاگیرداری نظا م کو بر قرا ر رکھنے کے لیے شدت پسندی اور تشدد کا سہارا لیے ہو ئے ہیں یہ  لو گ عام بلو چ عوا م کی معیا ر زندگی بہتر کر نے کے لیے حکومت اور فو ج کے تما م تر  ترقیا تی منصو بو ں کی شدید مخا لفت کر  تے ہیں جو بلو چ عوا م کو ہمیشہ غربت کے شکنجے میں جکڑے رکھنے کا ایک سو چا سمجھا منصو بہ ہے۔ مغربی ممالک میں مقیم  ان ذیلی قوم پرستوں نے بھارتی وزیراعظم کی بلوچ عسکریت پسندوں سے تعاون کی تقریر پر بھرپور خوشی کا اظہار کیا ۔حربیار مری اور براہمداغ بگٹی نے مودی کےاس  بیان کی ذاتی طور پر پذیرائی کی،حتیٰ کہ اس کے بعد براہمداغ نے بھارتی شہریت کے حصول کے لیے باضابطہ درخواست بھی دائر کی۔بلوچ عسکریت پسندجو ان رہنماؤں کے جھانسے میں آکر اپنے ہی لوگوں کے کشت و خون میں مصروف تھے،غیرملکی صحافیوں کی ان کے رہنماؤں کی عیاش پرستی اور بھارتی سفارتکاروں سے اکثر ملاقاتوں کے متعلق انکشافات کے بعد ان سے منہ موڑ چکے ہیں۔علاوہ ازیں یہ پاکستان مخالف رہنما”را” کے جاسوس کُل بھوشن کی گرفتاری سے مایوس اور پریشان ہیں جس کی وجہ سے ان کے مذموم مقاصد کو شدید جھٹکا لگا ہے،اس صورتحال میں بلوچ عوام کی ان کے ناپاک عزائم کے متعلق آگاہی ان کے خلاف ایک فطری رد عمل ہے۔

یہ علیحد گی پسند مختلف حر بو ں  سے گیس کی پا ئپ لا ئنز ، بجلی منتقل کر نے کی لا ئنز اور گرڈ اسٹیشنز  تبا ہ کر نے کے سا تھ ساتھ ریلوے اور روڈ کے بنیادی ڈھا نچو ں کو نشانہ بنا تے ہیں تاکہ بلو چ عوام کو محر وم اور با قی صو بو ں سے منقطع رکھا جا ئے ۔ ایسے تمام حملے بنیادی طور پر بلو چ عوام کو نقصا ن پہنچا تے ہیں اور صو بے میں تو ا نا ئی کے بحر ان کا با عث بنتے ہیں۔ ان کا ہدف ڈیم اور صنعتی زون کے مقامات ہو تے ہیں کیو ں کہ بلو چستان کی اقتصا دی تر قی میں ان کا کلیدی کر دار ہے ۔ان نا م  نہا د قوم پر ست رہنما وں کا مقصد بلوچستان کو ہمیشہ بجلی   وگیس سے  محر وم رکھنا ہے ۔ ان کے بچے یو رپ کے  بہترین تعلیمی ادا روں میں زیر تعلیم ہیں جبکہ صو بے میں یو نیورسٹیوں کےقیام کی مخا لفت کر کےیہ بلو چستان کے نو جو انو ں کو جدید علو م سے محر وم رکھنا چا ہتے ہیں۔ ان رہنما وں کی خو د ساختہ جلا وطنی میں عیش و عشر ت  کو دیکھ کر ہتھیا ر ڈا لنے والے بہت سے با غیو ں کا یہ خیا ل ہے کہ اگر یہ نا م  نہا د رہنما حقیقت میں بلوچ عوام کی مدد کر نا چا ہتے ہیں توانھیں چاہیے کہ  بر طا نیہ اور سوئیٹرز لینڈ کے آرام و آسائشوں کو چھو ڑکر  صو بے میں مر کزی دھارے کی سیا ست میں حصہ لے کر ترقیا تی کا م کر یں ۔بلوچستان کے مسلح باغیوں کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ ان کی کوششوں کا فائدہ ان نام نہاد رہنماؤں کو ہورہا ہے جو انھیں میدان جنگ میں شکستہ حال چھوڑ کر خود جلا وطنی میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

سی پیک کے ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع ہوتے ہی ان علیحدگی پسند اور قوم پرست رہنماوں کی بلوچ عوام کےساتھ دشمنی مزید واضح ہو کر سامنے آنے لگی ۔بھارتی خفیہ ایجنسی “را” کی بھرپور مالی معاونت سے یہ رہنما ترقیاتی منصوبوں پر حملے کی ہدایات دے رہے ہیں تاکہ بلوچستان کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی جا سکے۔اس ضمن میں یہ چینی انجیر ز ، مزدوروں اور اقتصادی راہداری سے منسلک بڑے منصوبوں پر حملے کرواتے ہیں۔ان مسلح باغیوں کے ذریعے یہ دشمن عناصر سی پیک اور ملک و صوبے کی تقدیر بدلنے والی گوادر بندرگاہ کی سیکورٹی کو نقصان پہنچا نے  کی کوشش کررہے  ہیں۔بلوچ عوام کے لیے اب یہ راز نہیں رہا کہ بھارت ان باغیوں کو پاکستانی فوج کے خلاف مالی معاونت  کر رہا ہے تاکہ صوبے میں مزید بدامنی پھیلا کر ترتی کو روکا جا سکے۔کل بھوشن یادیوکی گرفتاری، مودی کی بلوچستان میں مداخلت کی تقریر اور جلا وطن بلوچ رہنماوں اور “را” کے درمیان پوشیدہ اور کھلم کھلا تعاون کے بعد بلوچ عوام کے دلوں میں ان علیحدگی پسند رہنماوں کی نام نہاد قوم پرستی پر شکوک و شہبات پیدا کردیئے ہیں۔

یہ ذیلی قوم پرست جان بوجھ کر صوبے کو برائیوں اور دہشتگرد کاروائیوں کا مرکز بنا رہے ہیں تاکہ ساری توجہ بلوچستان کی بدامنی پر مرکوز ہو۔یہ عناصر صوبے کو عدم استحکام سے دو چار کرنا چاہتے ہیں تاکہ اختلاف رائے ،سیاسی اتار چڑھاو ، فرقہ وارانہ فسادات،خراب ہوتی ہوئی امن وامان کی صورتحال اور ابھرتے ہوئے علیحدگی کے جذبات اور احساسات کو پروان چڑھایا جا سکے۔یہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ بھارت افغانستان کی سرزمین کو استعمال کر کے ان رہنماوں اور دہشتگردوں کی مالی معاونت کر کے انھیں آزادی کےلیے لڑنے والے لوگ ظاہر کرتا ہے۔

بلوچستان کی ترقی کے مخالفت کرنیوالے ان علیحدگی پسند رہنماوں میں ایک نمایاں متحرک دہشت گرد ڈاکٹر اللہ نذر ہے جو براہِ راست “را” کی مدد سے بلوچستان میں سنگین جرائم کا مرتکب ہے تا کہ ریاست کو عوام کی جان ومال کی حفاظت میں ناکام ہوتا ظاہر کیا جاسکے۔یہ مختلف حربوں سے معصوم بچوں ،عورتوں اور مردوں کو قتل کروانے ،یونیورسٹی کی خواتین طلباء ،مسلح افواج ،قانون نافذ کرنیوالے اداروں  کے ساتھ ساتھ اہم ترقیاتی منصوبوں پر دہشت گرد حملے کروانے جیسی پاکستان مخالف کاروائیوں میں ملوث ہے۔ ان سرگرمیوں کے عین مطابق بھارتی “را” کی انتظامی پروپیگینڈہ ویب سائٹ “ون انڈیا” نے اس بدنام زمانہ دہشت گرد اللہ نذر کا ایک من گھڑت زہریلا انٹرویوشائع کیا۔ اس انٹرویو کا مرکزی مواد پاکستان چین تعلقات ،پاکستان کے قانون نافذکرنیوالے اور حساس اداروں کے خلاف روایتی  بے بنیاد الزامات کے گرد گھومتا ہے ۔ اس بات کا تذکرہ عام ہے کہ اللہ نذر اور اس کا دہشت گرد گروہ بلوچ لبریشن فرنٹ آوران ،پنجگوراور کچ کے اضلاع میں تعلیمی اداروں اور باقی بنیادی ڈھانچوں کو تباہ  کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کو حراساں کرنے میں مشغول تھا جو ۲۰۱۳ کے زلزلے میں امدادی کاروائیوں کےلیے  پاک فوج کی آمد پریہ علاقےچھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہو ا۔بھاگنے والے اللہ نذر اور اس کے ہم خیال دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا علم صرف “را” کو ہےجو اب بھی بلوچستان میں ترقی کے خلاف ان سے دہشت گرد کاروائیاں کروا رہی ہے۔ایک سمجھدار معاشرے میں ایسی دہشت گرد سرگرمیوں کو کیسے آزادی کی تحریک سے جوڑا  جا سکتا ہے ۔

یہ ذیلی قوم پرست اور علیحدگی پسند رہنما صوبے میں فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ہیں جوا س بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پسِ پردہ ان کی مدد کرنیوالی طاقتیں صرف بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال خراب کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں تاکہ بلوچستان کی بڑھتی ہوئی ترقی کو روکا جا سکے۔بلوچستان کی عام عوام کو ان تلخ حقائق  کا احساس ہونا چاہیےتا کہ و ہ ان علیحدگی پسند اور نام نہاد قوم پرست رہنماوں کا بلوچستان مخالف ایجنڈا مسترد کر سکیں۔بہرحال ، یہ بات بلوچستان میں سرگرم ان دہشت گردوں کو معلوم ہونی چاہیے کہ ان کے پاکستان کو نقصان پہنچانے والے حربےکسی صورت کامیا ب نہیں ہو سکتے ۔یہ ان کا ذاتی مفاد ہے کہ وہ ہتھیار ڈال کر صوبے میں بدامنی پھیلانے سے باز رہیں ۔ ان کے غیر ملکی آقا پاکستان کے دشمن ہیں جو اپنی پاکستان مخالف حکمت عملی میں انھیں صرف ایک آلہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں تاہم ان دہشت گردوں کی بقاء صرف اور صرف ایک متحد پاکستان کے علاوہ اور کہیں نہیں ۔اس مقصد کے لیے ہمارے اخباروں اور میڈیا ہاوسزکو پاکستانی معاشرے میں اتحادو اطمینان کو فروغ دینے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔انھیں چاہیے کہ یہ فعال انداز میں اس حقیقت کا پرچار کریں کہ بلوچ عوام محب وطن پاکستانی ہیں جن کا ان ذیلی قوم پرستوں اور علیحدگی پسند رہنماوں کی پاکستان مخالف سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ان دہشت گردوں کا مقصد صرف اور صرف بلوچستان کی پسماندگی ہے تا کہ یہ بلوچ عوام پر اپنا  تسلط اور فوقیت ہمیشہ برقراررکھ سکیں۔

[/urdu]

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top