حصولِ رقم کے لیے دہشت گردوں کے غیر اسلامی ذرائع

حصولِ رقم کے لیے دہشت گردوں کے غیر اسلامی ذرائع

taliban

(ایس اکبر)

کسی دہشت گرد یا انتہا پسند تنظیم کی مضبوطی ، فعالی اور منظم رہنے کا انحصار روپے پیسے پر ہوتا ہے۔ دہشت گرد گروہوں کی کاروائیاں، بھرتیاں، اسلحہ، تربیت اور نظریے کی تشہیر کو ایک منظم طریقے سے چلانے کے لیے بھاری رقم درکار ہوتی ہے۔پیسے کی فراوانی کو یقینی بنانے کے لیے دہشت گرد تنظیمیں مختلف غیر شرعی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی طریقے اختیار کرتی ہیں جن میں غیر ملکی ایجنسیوں کی طرف سے مالی معاونت، منشیات کی سمگلنگ، ڈکیتی، گاڑیوں کی چوری، بھتہ وصولی، اغواء برائے تاوان اور غریبوں/ ناداروں کے نام پر زکوٰۃ اور عطیات کی وصولی شامل ہیں۔ پاکستان میں موجود دہشت گرد گزشتہ کئی عرصے سے مندرجہ بالا طریقوں پر عمل پیرا ہو کر اپنے گروہوں کے لیے پیسہ جمع کر رہے ہیں۔

القاعدہ، تحریکِ طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہ اپنی مجرمانہ کاروائیوں کو بروئے کار لانے کے لیے دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے دی گئی مالی معاونت پر انحصار کرتے ہیں تا کہ وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کاروائیاں سر انجام دے سکیں۔ افغانستان سے منشیات کی سمگلنگ کے ذریعے دہشت گرد کروڑ وں روپے اور سینکڑوں ڈالر کماتے ہیں۔ نشہ ، چوری اور ڈکیتی جن کی اسلام سخت مذمت اور مخالفت کرتا ہے دہشت گرد انہی شیطانی افعال کو اسلام کے نام پر استعمال کر کے اپنی جیبیں اور پیٹ بھرتے ہیں ۔ علاوہ ازیں جہاد کے لیے چندہ، زکوٰۃ و عطیات ، فلاحی اداروں، مساجد و مدارس اور قربانی کے جانور کے نام پر اکٹھی کی گئی رقم بھی شیطانی اور غیر اسلامی کاروائیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ کالعدم جماعتیں پکڑے یا مارے جانے والے کارندوں کے کُنبوں کی مالی امداد بھی اسی پیسے سے کرتی ہیں۔جس کا مقصد صرف اور صرف ان کُنبوں کی ہمدردی حاصل کرنا اور مزید بھرتیوں کو یقینی بنانا ہے۔

تاہم حالیہ دنوں دہشت گرد تنظیموں کے پیسے اکٹھے کرنے کے ذرائع میں ایک واضح تبدیلی دیکھی گئی ہے جو صرف اغواء برائے تاوان ، ڈکیتی اور بھتہ وصولی تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستانی حکومت، افواج اور عوام کی دہشت گردی کے خلاف محاذ بندی ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف عسکری اور نظریاتی جنگ کی کامیابی کی بدولت ان گروہوں کو پیسے کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ پاکستانی حکام نے دہشت گرد تنظیموں کو کالعدم قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان کی بینک اکاؤنٹ بھی ضبط کر لیے جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کا مشرقِ وسطیٰ کے دہشت گرد نیٹ ورک سے پیسے اکٹھے کرنے کا سلسلہ ٹوٹ گیا اور چار و نچار یہ دہشت گرد واضح طور پر غیر قانونی اور مجرمانہ اطوار اختیار کر رہے ہیں۔

یہ گروہ تحریک طالبان کے پاکستان کے مختلف علاقوں سے غیر اسلامی اور غیر قانونی کاروائیاں کر کے پیسہ اکٹھا کرتےاور جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام اُنہیں اس بات کی مکمل اجازت دیتا ہے۔ ماہرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق یہ گروہ اسلام کے نام پر ایسی کاروائیاں کر کے کئی لاکھ ڈالر کما چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اغواء کی قیمت ۵۰ کروڑ سے لے کر 1.5 ارب ڈالر لگائی جاتی ہے۔پاکستان کے مختلف علاقوں میں بینک ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی وجہ سے پورے ملک کو معاشی خسارے کا خمیازہ بھگتنا پڑاہے۔اس پر ستم ظریفی یہ کہ دہشت گرد اس مجرمانہ فعل کو جہادی کاروائی کا نام دیتے ہیں نعوذ با للہ اپنی دنیاوی خواہشات کی تکمیل کے لیے کی جانے والی چوریوں / ڈکیتیوں کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جائز قرار دیتے ہیں ۔ کیا کبھی کسی نے یہ بھی سنا تھا کہ اسلام چوری کرنے کی تلقین کرنے والا مذہب ہے؟ یہ شیطان صفت انسان تو بس اللہ کے دین پر جھوٹ باندھ رہے ہیں اور آخرت میں دئیے جانے والے عذاب سے بے خبر بیٹھے ہیں۔ پاکستانی عوام کی اکثریت کی مخالفت کے باعث یہ دہشت گرد اب ہر غیر اخلاقی اور غیر شرعی فعل کو اسلام سے منسلک کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باعث کئی انتہا پسند تنظیمیں بے نقاب ہوئیں جو اسلام کے نام پر چندہ اکٹھا کیا کرتی تھیں ۔پاکستانی عوام کی بیداری اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ لوگ اب دہشت گردوں کے جھوٹے دعوؤں میں آنے کو تیا ر نہیں۔ تا ہم عوام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہر ممکن طور پر ان دہشت گردوں کے پیسہ اکٹھا کرنے کے ذریعوں کو ناکام بنائیں۔ لوگوں کو مقامی سطح پر اس بات کا مکمل خیال رکھنا ہو گا کہ کوئی بھی مذموم عزائم رکھنے والا گروہ ان کے ذریعے اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہونے پائے۔ اور مخیر حضرات اپنی زکوۃ عطیات ،قربانی کے جانور ، چندہ اور امداد مکمل تسلی کرنے کے بعد ہی دیں ۔بے شک یہ گروہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے برسرِ پیکار ہے لیکن پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کے حوصلے بلند ہیں۔ ان ملک دشمن عناصر کو جلد کیفرِ کردار تک پہنچا یا جائے گا۔حکومت ِوقت نے بر وقت فیصلہ کرتے ہوئے ‘نیشنل ایکشن پلان ‘ میں ان دہشتگردتنظیموں میں فنڈز کی تر سیل کو روکنے کے لیے با قاعدہ پالیسی کا اعلان کیا ہے جس میں ان تنظمیوں کو پیسوں کی روانی کو روکا جائے گا۔ افغانستان سے ہونے والی منشیات کی سمگلنگ اور مشرقِ وسطیٰ کے دہشت گرد نیٹ ورک سے آنے والی امداد کی روک تھام کو یقینی بنایا جائے گا۔ عوام اور اربابِ اختیار کے لیے بے حد ضروری ہے کہ وہ دہشت گردوں کے ان ہتھکنڈوں اور سازشوں سے ہوشیار رہیں۔ کیونکہ پاکستان کے امن پسند اور اسلام دوست لوگوں کی بے داری ہی دہشت گردی کی کاروائیوں میں کمی کی ضمانت ہو گی۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top