حکمتِ عملی کی فرسودہ تقلید ۔ نتیجہ باعث ندامت

pak army حکمتِ  عملی کی فرسودہ تقلید ۔ نتیجہ باعث ندامت

 

                سیّد ناصررضا کاظمی
جماعتِ  اسلامی کے موجودہ سربراہ منور حسن نے ایک بار پھر ملک میں جاری فرقہ واریت کی سلگتی چنگاریوں پر تیل کا بھرا ہوا ڈرم الٹ دیا، مختلف حیلے بہانوں اور لایعنی مصلحتوں کی آڑ میںیا پھر طالبان کے کسی متشدد گروہ کی جانب سے اُنہیں دی جانے والی کسی ممکنہ دھمکی کے خوف نے لگتا ہے اُنہیں اِس قدر خوفزدہ کررکھا ہے کہ اُن کی زبان قابو اُن کے کنٹرول میں نہیں رہی وہ ’نظامِ  دہشت گردی ‘ کے تسلسل کو جوں کا توں قائم رکھنے کی چاکری سے وابستہ لگتے ہیں اِسی چکر میں جماعتِ  اسلامی کی پوری شوریٰ کو عالمی ومقامی دہشت گردوں کے ہاتھوں منور حسن نے یرغمال بنا دیا ہے پارلیمنٹ کے دونوں ایوان دہشت گردی کے خلاف کسی متفقہ فیصلہ پر ابھی پہنچنے بھی نہیں پاتے تو اچانک منور حسن ملک کے اسلامی فرقوں کے مابین اپنے کسی ایک بیان سے ایسا طوفان کھڑ ا کردیتے ہیں جس سے دہشت گردی کے خلاف ہونے والا کوئی بھی  جمہوری فیصلہ مشکوک ہوجاتا ہے عوامی طبقات کے مابین کوئی نہ کوئی نیا تنازعہ جنم لیتا ہے کل کہا گیا ’اگر پاکستانی فوجی جوانوں کے ساتھ دہشت گردی کی لڑائی میں ہلاک ہونے والا دہشت گرد ’شہید ‘ کہلائے گا ‘ منور حسن نے یہ ہرزہ سرائی فرماکر براہِ  راست مسلم ریاست کی مسلح افواج کے ایمان کے پختہ جوانوں کو للکار ا اور اُن کی حوصلہ شکنی کرنے کے باعث بنے جو جماعت ’اسلام ‘ کے نام کے ’لاحقہ‘ سے شہرت رکھتی ہو کیا ایسی جماعت قرآنی تعلیمات کی مقررہ کردہ حدود سے اِس قدر روگردانی کرسکتی ہے ؟ اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج پاکستان اندرونی وبیرونی دشمنوں کی سرکش تیغوں کی زد میں اپنی بقاء کی آخری اور فیصلہ کن جنگ لڑرہا ہے، چلیئے مذاکرات اپنی جگہ پر  ہو رہے ہیں مگر آئینِ  پاکستان کے جن سرکش مسلح گروہوں نے ملکی سیکورٹی اداروں کو کمزور کرنے یا اُنہیں بے دست وپا کرنے میں تا حال کوئی قیقہ فروگزاشت نہیں کیا   جنگ جیسی کیفیت کے شکار ملک میں منور حسن کی جانب سے آنے والے اِس تازہ تباہ کن بیان نے مزید بے چینی کو ہوا دیدیا

افسوس ! اُنہوں نے قرآنی آیات کی ہدایات کے بالکل برعکس ’سیدالشہداء‘ کے منصبِ جلیلہ کی توہین کرکے ایسا گناہ کیا ہے جو شائد اُن کے نزدیک ’گناہ ‘ ہی نہیں شہرت کی مجلس آرائی کا ایک بہانہ ہے، 61 ہجری میں جب’ یزید ‘جیسے شخص کے ہاتھوں میں اسلامی ھکومت کی باگ دوڑ آئی تو وہ کھلے عام ظلم واستبداد کی حکومت تھی جسے ہر عہد کے ہر ایک مکتبہ ِٗ  فکر کے علماء وآئمہ نے بل استثناٰ’حکومتِ  جابرہ ‘ قراردیا یہ حوالہ کسی شیعہ مسلمان محقق یا تاریخ داں کی کتاب کا حوالہ نہیں ہے امام الہند مولانا ابوالکام آزاد کی تصنیف ’شہادتِ  حسین‘کے صفحہ نمبر 59 میں لکھا ہوا ہے کہ ’’حضرت سیّد الشہداء نے اپنی قربانی کی مثال پیش کرکے جہادِ  حق کی بنیاد رکھی جس حکومت کی بنیاد ظلم وجبر پر تھی اُس کی اطاعت وفرمانبرداری سے انکار کردیا ‘ اِسی مذکورہ پیراگراف سے قبل’ غیر شرعی اور اسلامی حکومت‘ کے پیرگراف میں مولاناابولکام تحریر فرماتے ہیں ’ یزید کی حکومت غیر شرعی حکومت تھی کوئی حکومت‘جس کی بنیاد جبرو شخصیت پر ہو کبھی بھی اسلامی حکومت نہیں ہوسکتی، اِس حکومت نے اسلام ‘ روحِ  حریّت و جمہوریت کو غارت کیا، مشورہ و اجتماعِ  امت کی جگہ غلبہ   جابرانہ اور مکروخدع پر اپنی شخصی حکومت کی بنیاد رکھی اِ س کا نظامِ  حکومت ’شریعتِ  الہیہٰ نہ تھا‘ بلکہ محض اغراضِ  نفسانیہ و  مقاصدِ  سیاسیہ ‘ایسی حالت میں ضرور ی تھا کہ ظلم وجبر کے مقابلے میں ایک مثال قائم کی جاتی حق وحریّت کی راہ میں جہاد کیا جاتا ‘مولانا ابوالکام آزاد کی تصنیف مکتبہ ِٗ  جمال لاہور نے شائع کی ہے اہم کتب خانوں میں دستیاب ہے پہلی فرصت میں جماعتِ  اسلامی کے سبھی معزز شوریٰ کے ارکان 72 صفحات پر مشتمل اِس کتاب کا مطالعہ فرمائیں تاکہ اُنہیں بھی ’یزید‘ جیسے فاسق وفاجر شخص کے جبر وستم سے آگاہی حاصل ہو او روہ اپنی جماعت کے سربراہ منور حسن کو باور کراسکیں کہ61 ہجری میں میدانِ  کربلا میں نبردآزما جنگ ’ دوصحابیوں ‘کی جنگ نہیں تھی بلکہ الہیٰ تعلیمات اور غیر الہیٰ تعلیمات کے درمیان حق وباطل کا معرکہ تھا اِسی کتاب کے سرنامہ کا یہ اقتباس مزید وضاحت پیش کرتا ہے جسے جانے بغیر دنیائےِ  دیوبند کے عالم وفاضل اور معزز ومحترم قائدین تک یہ حقیقت کیسے پہنچ سکتی کہ امام حسین ؑ  ہی واحد شخصیت ہیں جنہیں مسلمانوں کے سبھی مکتبہ  فکر ’سیّد الشہداء ‘ کے عظیم مرتبہ پر فائز قرار مانتے ہیں ’ ’واقعہ   عظیمہ ِ  شہادت حضرت سیّد الشہداء علیہ وعلیٰ آباۂہ الصّلواۃ والسلام پر ایک درسِ  بصیرت‘جو حضرت مولانا ابوالکام آزاد نے 5 ؍ محرم الحرام1334 ہجری المقدس بمطابق 13 ؍ نومبر1915 کو مسلم انسٹی ٹیوٹ ہال کلکتہ کے ایک غیر معمولی جلسہ میں دیا‘‘کاش! جماعتِ  اسلامی اپنے اندر فرقہ واریت کے امڈتے   عفریت کو اب بھی قابو کرلے تعلیمی اداروں میں طلباء یونین کی آڑ میں ہتھیار بند قدم اِس جماعت نے شروع کیئے جس کا نتیجہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی طلباء یونیوں کی باہمی چپقلش سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے اوّلین کوشش اِن کی یہ ہوتی ہے کہ اوروں پر اپنے نظریات کو زبردستی ٹھونسیں، ورنہ مسلح جدوجہد ‘ جماعتِ  اسلامی نے آجکل منور حسن کی قیادت میں تقلید کا اہرمنی وطیرہ اختیار کیا ہوا ہے بڑی دیدہ دلیری سے یہ’ صاحب ‘دین اسلام کی عالمگیر انسانیت نوازی ‘ ترحم نوازی ‘ امن پسندی بلا اشتعال قتل وغارت گری سے معاشرے کو تحفظ دینے کی تعلیمات کے بر خلاف اپنا یکطرفہ خشک، جنونی اور درشت رویہ اپنا کر ملک بھر کے دہشت گردوں کی حمایت ونصرت کے بڑے کھلے طرفدار دکھائی دے رہے ہیں اِن کا یہ رویہ کوئی نیا انوکھا طریقہ   واردات نہیں ہے شہادت جیسی عظیم آفاقی عظمت پر اور سیّد الشہداء کے الہیٰ القاب پر اِن جنا ب کے متنازعہ بیانات تو رہے ایک طرف ہمیں اُس وقت مزید حیرت اور تعجب ہوتا ہے جب ہم علمی تحقیق کی جستجو میں حضرت مولاناامین اصلاحی جیسے قدآور دینی شخصیات کی اُ ن تحریروں کا مطالعہ کرتے ہیں جنہیں پڑھ کر ا ہماری فکر کی رعنائیوں میں نہ صرف پختہ نکھار پیدا ہوتا ہے بلکہ ہم اور زیادہ دین کے نام پر سیاست چمکانے والی جماعتوں کے اندر پڑی فرقہ واریت کو بے نقاب ہوتا ہوا پاتے ہیں مولانا اصلاحی نے اپنے مقالات کی جلد اوّل میں ایک مقام پر بہت سی وجوہات کا تذکرہ کیا کہ وہ اِس جماعت کے ساتھ کیوں نہیں چل سکتے ایک طویل مضمون ہے نہایت مختصراً اقتباس’’بعد میں جب مولانا موصوف کے مضمون پر بعض تنقیدیں نکلیں اور اِن کے سبب سے جماعت کے حلقوں میں اضطراب نمایاں ہو ا تو مولانا نے ایک اور طویل مضمون اپنے اِسی فلسفہ کی حمایت میں لکھ مارا جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش فرمائی کہ’’ مسلمان حکمتِ  عملی کے تحت کلمہ   کفر بھی کہہ سکتا ہے حکمتِ  عملی کے تحت کسی کو قتل بھی کراسکتا ہے، حکمتِ  عملی کے تحت کسی اجنبی عورت کے کپڑے بھی اتار سکتا ہے، حکمتِ  عملی کے تحت جھوٹ بھی بول سکتا ہے، حکمتِ  عملی کے تحت غیبت بھی کرسکتا ہے ‘ ‘ یقینابات اب سمجھ میں آگئی ہے کہ منور حسن اپنی جماعت کے بانی کی تقلید میں اجتہادی فکر وتفکر کے قائل نہیں ‘ یوں سمجھ لیجئے یہ ایسے مقلد ہیں جن کا ذکر قرآنِ  مجید میں بیان ہوا ہے ’’اِن کے پاس دل ودماغ ہیں مگر ‘نہیں سمجھتے ‘ آنکھیں پر نہیں دیکھتے ‘ کان ہیں پر نہیں سنتے ‘ خود اپنے ذہن سے کام نہ لینے اور مقلد محض ہونے میں وہ مثل چوپائیوں کے ہیں بلکہ اُن سے بھی گمراہ‘۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top