ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے

quetta - pak day 

ہجرتوں کی دھوپ میں تائیدایزدی کے اشارے حصولِپاکستان کی جدوجہد کا مختصر سا احوال )والد محترم مرحوم میجر محمد قاسم کی یاد داشتیں جس کوعابدہ رحمانی نے مرتب کیا اور شائع کروایا   14اگست کےروزنامہ جسار ت ا  ور روزنامہ جنگ کے آزادی ایڈیشن میں شائع ہوئیں۔(

از —

عابدہ رحمانی

اللہ تبارک وتعالیٰ کا بیحد کرم اور بے پناہ احسان ہے کہ پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے 67برس پورے ہورہے ہیں۔ اگرچہ اس دوران ہم بہت بڑے سانحے سے دوچار ہوئے ہمارا ایک بازو ہم سے کٹ گیا۔ بے پناہ ذلت اور ہزیمت اٹھائی لیکن آج ہم پھر اس بچے کھچے ملک کی تعمیر میں مصروف ہو گئے ہیں۔ یہ ملک ہم مسلمانوں کے لیے ایک عطیۂ خداوندی ہے۔ دشمنانِ ملت جب اس کے خلاف سازشوں کا جال بچھاتے ہیں تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے اس لیے کہ ان سازشوں میں اپنے پہلے ہوتے ہیں اور دوسرے بعد میں آتے ہیں۔ مجھے وہ وقت یاد آتا ہے جب انگریز فوجی افسر ہم سے کہتے تھے’’ تم لوگ پاکستان بنانے کا شوق پورا کر لو لیکن ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں کہ  یہ چھ مہینے سے زیادہ نہیں چلے گا‘‘ انہوں نے ہر چال چلی لیکن مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کی برکت اور جذبہ مسلمانی کی برکت سے یہ ملک اللہ کی مہربانی سے قائم و دائم ہے۔

قیام پاکستان کے وقت میری تعیناتی جھانسی (بھارت) کے مقام پر تھی۔ جھانسی اس وقت متعصب ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کا گڑھ تھا اور ان کا مقصد اور مقولہ تھا ’’مسلمانوں کی تباہی اور بربادی‘‘۔ یکم اگست 1947ء کو میں نے جھانسی میں حاضری دی۔ کمانڈنگ آفیسر کرنل باورڈیگ سے انٹرویو ہوا۔ یہ افسر انتہائی باخبر تھا۔ وار آفس (جنگ کے دفتر) لندن میں بریفنگ کے لیے جاتا۔ دہلی اورشملہ سے کثرت سے رابطہ تھا۔ انہوں نے مجھے اپنے اہل خانہ کو لانے اور اچھی رہائش دلانے کا وعدہ کیا کیونکہ اس کے خیال میں فروری 1948ء تک وہیں مقیم رہوں گا۔ یہ میرے لیے ایک لمحہ فکریہ تھا لیکن جب اس پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ ہندو لیڈروں گاندھی، نہرو، پٹیل، سکھ لیڈر (تارا سنگھ، بلدیو سنگھ وغیرہ) اور انگریز حکومت اور ان کے نمائندہ وائسرائے اور انڈین یونین کے پہلے گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن کی مشترکہ پالیسی تھی کہ پاکستان کو چھ ماہ کے اندر اندر شیر خوارگی ہی میں ختم کیا جائے اور اس کے لیے تمام حربے استعمال ہوئے۔  افواج ہند کی تقسیم نہایت ہی مجبوری کی حالت میں عمل میں لائی گئی جو کہ قائداعظم کی مومنانہ فراست اور فولادی عزم کی وجہ سے ممکن ہوئی۔  ہندوستان بھر میں خاص کر مشرقی پنجاب میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ ہزاروں جوان لڑکیاں اورعورتیں اغواء ہوئیں اور تقریباً ایک کروڑ لوگ بے سروسامانی کی حالت میں ہجرت کر کے پاکستان آئے اور ان پر بھی راستوں میں قاتلانہ حملے ہوتے رہے۔ آگ اور خون کے دریا پار کر کے لوگ اس وطن پاکستان میں پہنچے۔  میں میس کے سنگل آفیسرز کی ہٹس میں رہائش پذیر تھا اس لیے بہت سے افسروں (انگریز اور ہندوؤں) سے جان پہچان کا موقع لا۔ اپنے دفتری انتظام میں کام، قواعد و ضوابط کے مطالعے پر بھرپور توجہ دی اور اپنے سابقہ تجربے سے پورا فائدہ اٹھایا جو کہ دوسری عالمی جنگ میں 1939-1945ء کے دوران 16 ماہ کی فیلڈ سروس (شمالی افریقہ) کے علاوہ دو تین یونٹوں کی انسٹرکٹرشپ میں حاصل ہوا تھا۔ اس کے علاوہ لکھنؤ میں گیارہ سو بستروں کے سی ایم ایچ ہسپتال کی ایڈمنسٹریشن اور ملٹری جیل خانہ جات اور حوالاتی بیرکوں میں گوروں کی کمان بھی میں کر چکا تھا۔

14 اگست 1947ء کا دن آیا تو آفیسرز میس میں پارٹی دی گئی، سجاوٹ کے لیے پاکستان کی جھنڈیاں کوشش کے باوجود نہ مل سکیں ہم نے اصولی طور پر ہندو افسروں سے منوا لیا تھا کہ اب ہم ایک علیحدہ قوم ہیں اور ہمارا ملک پاکستان ہے۔ مسلمان سٹاف بکھرا ہوا اور حد درجہ غیر منظم تھا۔ آپس میں رابطہ نہ تھا اور اکثریت حالات سے بے خبر تھی۔ مشرقی پنجاب والے اپنے گھروں، اہل خانہ اور رشتہ داروں کے متعلق فکرمند تھے۔ سٹاف کی فلاح و بہبود کا کوئی بندوبست نہیں تھا اور نہ ہی انہیں کہیں سے رہنمائی حاصل تھی۔ 

میں نے پہلے ان پر توجہ دی، انہیں منظم کیا سب کو یکجا کر کے حالات کی نزاکت سے باخبر کیا۔ ملی جذبہ بیدار کیا، محنت، ایثار اور قربانی پر آمادہ کیا۔ رفتہ رفتہ بفضلِ ربِ کریم اچھی ٹیم بنتی چلی گئی۔اس کے علاوہ حقوق کے حصول (ہمیں یہاں سے سروس ریکارڈزاور سٹیشنری وغیرہ لے کر پاکستان جانا تھا) کے لیے مسلسل جدوجہد کی۔ قدم قدم پر سٹاف کی رہنمائی کی اور کامیابی حاصل ہوتی ہوگئی۔

سٹاف میں کلرک وغیرہ پنجابی، پٹھان اور بنگالی مسلمان تھے۔ سب مل کر بہترین جذبے کے ساتھ ایک دوسرے سے تعاون کرتے تھے۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ ہم لوگ اگرچہ فوجی تھے لیکن مسلمان ہونے کے ناطے ہر وقت جان کا خطرہ لاحق تھا۔ عام مسلمان تو انتہائی خوف اور خطرے کی حالت میں تھے۔ کسی سے شکایت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ حکومت ہمارے مخالف تھی کانگریسی حکومتی پارٹی ہندو مہاسبھا وغیرہ سب ہی دشمن تھے۔ انہیں دنوں معمول تھا کہ بھوپال اور گوالیار کے درمیان چلتی ٹرینوں سے مسلمانوں کو پھینک دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیلایا جاتا تھا۔ افواہیں زوروں پر تھیں۔ ریڈیو، اخبارات وغیرہ پر ہندوؤں اور سکھوں کا غلبہ تھا۔ انگریز بھی ان کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگے رہتے تھے۔ہمارے پاس نہ اپنی کرنسی تھی اور نہ ہی سرمایہ ان حالات میں عام آدمی کا مورال کیا ہو گی یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں۔

میں مختلف سیکشنوں میں کام کرتا رہا اور گاہے بگاہے اپنے کمانڈر کو اس کی پروگریس بتاتارہا۔ سروس ریکارڈ حاصل کرنے کا کام کافی مشکل تھا۔ شروع میں چند دستاویزات ملیں اس کے بعد ہندوؤں اور سکھوں نے تعاون نہ کیا۔ خاص کر شمالی ہند کے ہندوؤں کا رویہ متعصبانہ رہا۔ اب ہم نے جنوبی ہند کے کلیریکل سٹاف کی مدد لی جو کہ غیر متعصب تھے وہ ہماری دستاویزات دینے پر آمادہ تھے اور یہ کام رات کی خاموشی میں ہوتا رہا جبکہ وہ لوگ ڈیوٹی پر ہوتے تھے۔ دستاو یزات کے فائلوں پر نام دیکھ کر ان کو الگ کر دیتے تھے، مسلمان افسروں کی فائلیں کے ساتھ غلطی سے ہم چند عیسائی اور سکھوں کی فائلیں بھی لے آئے جسے بعد میں کمانڈر کو واپس کر دیا اور وہ بہت مشکور ہوئے۔سٹیشنری کا حصول نسبتاً آسان رہا اور رفتہ رفتہ ہمیں اپنے حصے کی سٹیشنری اور فارم ملتے گئے۔ میں نے متعلقہ ہندو افسر پر واضح کیا کہ انگریز اپنے حصے کی سٹیشنری لے کر بمبئی ارسال کر رہے ہیں اور جب ہم اپنا حصہ لیتے ہیں تو تم لوگوں کو کیوں تکلیف ہوتی ہے۔ اس نے کہا “خان صاحب آپ بھی اپنا حصہ لے لیں آپ کو کون منع کر سکتا ہے”

ہم نے اپنے حصے کی سٹیشنری فارم وغیرہ اور 17 ہزار سٹینسل پیپرز حاصل کیے اور اسے میگزین کے کمرے میں خاموشی سے رکھتے رہے تاکہ تخریب کاروں کی نگاہوں سے دور رہیں۔ رات کو کلرک محمد خان اسی کمرے میں سوتا اور فجر کے وقت چلا جاتا۔

سٹیشنری کے ساتھ ہم نے دس عدد ٹائپ رائٹرز اور دو ڈپلیکیٹرز بھی لے لیے تھے مگر چند روز بعد جبکہ روانگی میں تاخیر ہوئی تو انڈین جی ایچ کیو سے اطلاع آئی کہ دونوں مملکتوں کا فیصلہ ہے کہ سٹیشنری میں ٹائپ رائرز اور ڈپلیکیٹرز شامل نہیں ہیں آپ لوگ یہ دونوں چیزیں نہیں لے جائیں گے۔ اس دوران مجھے جاٹ ہندو کپتان سے معلوم ہوا کہ یہ کام کپتان لالہ لاجیت رائے (تلوار، راولپنڈی) کی شرارت سے ہوا جو کہ آر ایس ایس کے ساتھ رابطہ رکھتا ہے۔ سٹینسل پیپرز پاکستان میں اس وقت بالکل نایاب تھے اس لیے اسی کو غنیمت جانا۔

ان حالات میں سٹاف کی سکیورٹی، ریکارڈز آف سروس اور سٹیشنری کی مناسب حفاظت کے ساتھ ساتھ ذاتی حفاظت پر بھی توجہ دی گئی۔ ہم حالات پر نظر رکھتے تھے۔ کوشش یہ تھی کہ ماحول ٹھیک رہے۔ لالٹین میں رات کے وقت دو سنتریوں کا ایک وقت میں بندوبست تھا۔ ان کے پاس سیٹیاں اور عام سونے کے لباس ہوتے تھے۔ انہیں ہدایت تھی کہ راؤنڈ کرنے والے افسروں اور وی سی او کو نہ پکارا جائے تاکہ انہیں شبہ نہ ہو کہ ہم ہوشیار ہیں اگر پوچھیں تو بتانا کہ رفع حاجت کے لیے اٹھا ہوں۔ پاکستان روانگی کے لیے رولنگ سٹاک (سپیشل ٹرین) کا انتظام ہو گیا۔ حرکت کرنے کا حکمنامہ مل گیا۔ 12 دسمبر 1947ء کو روانگی تھی۔

بھاری سامان مال کے ڈبوں میں لادا، آدمیوں کو ترتیب کے ساتھ بٹھا دیا کہ جہاں تک ہو سکے ایک پارٹی یونٹ کے آدمی ایک جگہ ہوں تاکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول میں آسانی ہو۔ سٹیشن پر موجود مہاجرین کو بھی مختلف ڈبوں میں بانٹ دیا۔ ہماری کوشش کے باوجود ریلوے والوں نے مال کے ڈبے آگے کی بجائے پیچھے لگا دیے۔ آگے لگانے میں ہمارے دو ہمارے دو مقاصد تھے کہ مال کے ڈبے کٹنے نہ پائیں گے اور پٹڑی سے اترنے کی حالت میں (جس میں کافی امکان تھا) انسانی جانوں کی بچت ہو گی۔ مگر انہوں نے تعاون نہ کیا اب مجبوراً میں نے یہ انتظام کیا کہ صوبیدار امیر علی خان کی ڈیوٹی لگائی کہ آپ آخری ڈبہ میں ہوں گے۔ ٹرین کی روانگی کے وقت پلیٹ فارم پر آگے ہوں گے اور تسلی کریں گے کہ ڈبے کٹ تو نہیں گئے۔ اگر کٹ گئے تو فوراً سیٹی بجائیں۔ آپ کے آدمی ڈبہ میں زنجیر کھینچ کر گاڑی رکوا دیں گے۔ چنانچہ آگے جب جالندھر میں ڈبے کٹ گئے تو اسی طریقے سے ہمیں معلوم ہوا ورنہ اگلے سٹیشن یا سٹاپ پر معلوم ہوتا تو تمام سامان، دستاویزات اور سٹیشنری سے ہاتھ دھونے پڑتے۔

اللہ اللہ کر کے وہ وقت آ پہنچا جس کا شدت سے انتظار تھا۔ 12 دسمبر 1947ء کو شام کے وقت ملٹری سپیشل ٹرین میں جھانسی سے 6 آفیسراور تقریباً 400 سپاہی سوار ہوئے تھے۔ ان کے افراد خانہ اور سویلین ان کے علاوہ تھے۔ آگرہ سے تقریباً 11 آفیسر اور 800 مزید سپاہی سوار ہوئے تھے۔ ہماری ٹرین آخری ملٹری سپیشل تھی اس سے پہلے جو ملٹری سپیشل جھانسی سے روانہ ہوئی اس کے فوجی پوری طرح مسلح تھے، ٹینک تھے، کمانڈ مکمل تھی، وائرلیس، ٹیلیفون تھے۔ ہماری ٹرین مقابلتاً دشمن کے لیے تر نوالہ تھی اس لیے میں نے پوری حالت افسروں، جونیئر کمیشنڈ افسروں اور نان کمیشنڈ افسروں پر واضح کر دی کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ جب تک ہم پاکستان خیریت سے نہ پہنچ جائیں کوئی غفلت اور لاپرواہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ ڈسپلن کا اعلیٰ مظاہرہ کرنا ہے۔ راشن پانی کے استعمال میں ہر ممکن بچت کریں، ایثار و قربانی وقت کا تقاضا ہے، دیکھ بھال لازمی ہے۔رب کریم نے اپنا فضل و کرم فرمایا کہ ہماری ٹرین کے کسی آدمی یا پارٹی کی تلاشی وغیرہ نہیں ہوئی جو جتنا سامان ساتھ لا سکتا تھا ٹرین میں لوڈ کر دیا۔ رات کے 12 بجے ہماری ٹرین روانہ ہوئی۔ 13 دسمبر کی صبح 8:30 بجے آگرہ پہنچ گئے۔

ٹرین رکنے کا وقت ایک گھنٹا تھا مگر ہندو، سکھ، آر ٹی او اور ایس ایس او کی مداخلت اورگڑبڑ کی وجہ سے تقریباً چار گھنٹے ٹرین رکی رہی۔ ہماری مسلسل شکایت اور احتجاج کے بعد انہوں نے ٹرین کی روانگی کی اجازت دی۔ اب انہوں نے اپنی من مانی کے بعد ٹرین سے اپنا گارڈ ہٹایا ہمارے گارڈ نے چارج لیا۔مہاجرین ٹرین پرٹوٹ پڑے، منصوبے کے مطابق ہمارے آدمی ڈبوں میں کھڑے رہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جگہ مل جائے لیکن دکھاوے کے طور پر شور مچاتے رے کہ مت آنے دو مگر دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر انہیں ڈبوں میں سوار ہونے میں مدد دیتے اس کے بعد ٹرین روانہ ہوئی۔

رات امرتسر سٹیشن پر گاڑی کھڑی ہوئی تو ایک ہندو جاسوس گاڑی کا جائزہ لینے کے لیے بڑھا کہ اتنے میں سنتری نے چھلانگ لگا کر ہالٹ پکارا اور سنگین کا نوک اس کے گلے سے لگایا ساتھ ہی جے سی او انچارج پستول لیے پہنچ گیا میں بھی پہنچا میں نے جے سی او کو تلاشی لینے کے لیے کہا۔ اس سے ہتھیار وغیرہ تو برآمد نہ ہوا اس سے پوچھا کہ ’’کون ہو تم؟‘‘ جواب ملا۔ شرنارتھی، میں نے کہا کہ شرنارتھی یا شرارتی’’ وہ معافیاں مانگنے لگا آگے کی جانب پلیٹ فارم پر تقریباً 100 گز دوردس آدمی بیٹھے آگ سینک رہے تھے۔ ظاہراً وہ اس واقعہ سے لاتعلق رہے مگر انہوں نے اپنے سرپرستوں کو یہ ضرور بتایا ہو گا کہ یہ لوگ الرٹ ہیں۔ آگے بیاس آیا کنارے پر ایک پہاڑی ہے جو کہ خطرناک جگہ تھی بلکہ کسی حد تک مقتل بتایا جاتا تھا وہاں سے بھی بفضل رب کریم خیریت سے گزرے۔ علی الصبح اذان سے قبل اٹاری پہنچ کر اطمینان کا سانس لیا۔ ٹرین کا چارج لینے کے لیے پاکستانی انجن ڈرائیور اور گارڈ وغیرہ آئے۔ اللہ کا بیحد شکر ادا کیا سٹاف نے پاکستانی جھنڈے کے مشابہ جھنڈا بنایا تھا اس پر 02 ای پاک کپڑے سے بنایا تھا وہ جھنڈا ہمارے کوپے کے باہر لگایا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ٹرین واہگہ پہنچ گئی۔

مادر وطن کی سرزمین پر پہنچ کر اور اتنی بڑی ذمہ داری بخوبی نبھانے کے بعد کیا جذبات تھے بیان سے باہر ہیں۔ سب سے پہلے تو نفل شکرانہ ادا کیا۔ پھر  روح پرایسی سرمستی اور سرشاری کی کیفیت چھا گئی کہ میں بالکل غافل ہوگیا۔ چندھیاتی ہوئی تیز دھوپ میں آنکھ کھلی تو ٹرانزٹ کیمپ کے سائیڈنگ پر تھا۔اسی طرح یہ کارواں منزل آگے بڑھتا رہا۔ محنت، ایمانداری، عزم مصمم اور مسلسل جدوجہد سے یہ گلستان پُر بہار ہو گیا۔یہ داستان رقم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نئی نسل کو بھی معلوم ہو کہ ابتداء میں ہم نے کس کس طرح اس چمن کی آبیاری کی۔ میں اب بھی اپنی نئی نسل سے مایوس نہیں ہوں۔

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے 

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیزہے ساقی 

***

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top