زعمِ باطل میں مبتلا ۔ جمہوری قائدین کی حالتِ زار

bilalwal سیّد ناصررضا کاظمی
شکسپیئر نے عظمت و اقبال مندی ‘ بصیرت و دانشمندی اور عوامی قائدین کی شناخت وپہچان کی سہولت کے لئے کیا خوب مثال پیش کی ہے لکھتا ہے ’بعض لوگ پیدا ہی عظیم ہوتے ہیں بعض محنت سے ‘ بے پناہ مطالعے کے نتیجے میں نیکی وبدی میں تمیز کے ذریعے سے اقوال و اعمال پر عمل پیرا ہوکر عظمت وقبال مندی حاصل کرتے ہیں اور بعض لوگوں پر ’حادثاتی طور پر ‘ مجبوراً ’عظمت واقبال مندی ‘ کا بوجھ لاددیا جاتا ہے جبکہ ’ایمرسن ‘ کہتا ہے تمام عظیم اور بڑے قدآور قائدین متوسط طبقے سے پیدا ہوئے اور اِسی متوسط طبقے سے پیدا ہوتے رہیں گے ‘ مغربی دنیا کے عظیم قائدین اور رہنماؤں کی یہاں بات کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے ہمیں اپنے درمیان نگاہیں دوڑانی ہیں کیونکہ اگر دنیا کے بڑے عظیم قائدین اور بصیرت آفروز سیاسی رہنماؤں کی ہم یہاں پر مثالیں دینا شروع کردیں تو وہ نکتہ ‘ وہ اصل بات اور اصل مختصر بحث باتوں اور مثالوں کے الجھاؤ میں گم ہوجائے گی ہمارا مقصد صرف یہ بیان کرنا ہے کہ بانی ِٗ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور مفکرِ پاکستان علامہ اقبال جیسی کوئی عظیم قائدانہ صلاحیتوں کی حامل شخصیت اب تک ہمارے ہاں کوئی ابھر نہیں سکی اصلاً و اصولاً رہنماؤں اور قائدین کی بین السطور کی گئی دومثالوں سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ کسی بھی قوم کی رہنمائی کرنے کا فریضہ ادا کرنے والے دور اندیش ‘ بصیرت آفروز ‘ صاحبِ مطالعہ ‘ اپنے سماجی ومعاشرتی مسائل کے کُلی وجزوی محرکات سے آگاہ ہونے کے علاوہ زندگی کی تلخ وترش حقیقتوں کی ہر اُس مشاہداتی اور تجرباتی راہ کی مشکلات و مصائب سے گزر ے ہوئے ہوتے ہیں ایسوں کی طبیعی زندگی محنتِ شاقہ کے پسینوں سے شرابور ہوکر اُس سرچشمہ ِٗ حقیقت کا آئینہ ہوتی ہے جہاں پہنچ کر اِن پیچیدہ و گنجلک سیاسی وسماجی اوصافِ حمیدہ کی ہر مشکلات ورکاوٹوں کی تکالیف کے دکھ درد سے اُنہیں مکمل آشنائی کا فہم و ادراک ہوتا ہے یہ بڑی بد قسمتی ہے کہ 67 برس گزر گئے بانی ِٗ پاکستان قائدا عظم محمد علی جناح اور مفکرِ پاکستان علامہ اقبال کا نام اور اُن کی تصویریں تو ہمیں حزب اقتدار اور حزبِ اختلاف کے جلسے جلسوں میں ہر جگہ نمایاں نظرآتی ہیں ہر کوئی اِ ن عظیم ’بانیانِ پاکستان ‘ کے ناموں اور تصاویر کی آڑ لے کر عوامی اجتماعات میں اپنے آپ کو اِن کا پیروکار ظاہر کرنے کی کوششیں کرنے میں کیسے کیسے زور نہیں لگاتا مگر وائے افسوس اب تک دیکھا یہ ہی گیا کہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ کر نہ اُنہیں قائد اعظم یا درہتے ہیں اور نہ ہی علامہ اقبال کی شاعری ‘یاد رہے کسی بھی پُژ مردہ اور مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں کی کھائیوں میں گری ہوئی قوم کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑاکرنے میں اُس قوم کے متحرک ذرائع میں ایک خاص اور اہم ذریعہ اُس قوم کے نبض شناس قلبِ شاعر میں جاگزیں ہوتا ہے یونہی آج ہم علامہ اقبال کی مثالیں بات بات میں نہیں دیتے علامہ اقبال پاکستان کی تخلیقی قوت کا کل بھی واضح واسطہ تھے آج بھی ہیں کل بھی رہیں گے علامہ اقبال کی شاعری کا ایک ایک شعر ہر شعر کا ایک ایک مصرعہ اور ہر مصرعہ کے ایک ایک لفظ کاایسا دل نشین مرقع ہے جسے جب بھی قلب ونگا ہ کی تخلیقی اثاثہ رکھنے والے پڑھتے ہیں تو اُنہیں کہنا پڑتا ہے تسلیم کرنا پڑتا ہے ’قوموں کی بیداری کی شاعری کافن اُس وقت جنم لیتا ہے جب ایسا عظیم نابغہ ِٗ روزگار شاعر مخفی خیالات اور مظاہرِ قدرت کے اشکال واجسام کے تجسس کے تجربات سے عالمِ تنہائی میں یقیناًخود بھی مستفید ہوا ہو‘ قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کا آج کا پاکستان اپنی تاریخ کے اِسی نازک ترین مرحلے سے گزر رہا ہے گز شتہ 20-25 برسوں کی بات کیا کریں پاکستان کے عوام کئی نسلوں سے اصلی وحقیقی سیاسی قیادت سے محروم ‘مجبور ومہقوراور تہی دست خلاؤں میں ’گھن چکر ‘ بنے گھوم رہے ہیں سیاسی بحرانوں پر بحران ‘ سیاسی الجھنوں پر مختلف النوع قسم کی نئی سیاسی الجھنیں ایک ہی شکل وصورت ‘ ایک ہی قسم کے سیاسی نعرے ‘ ایک ہی قسم کے سیاسی وعدوں کے پیروان سیاست دان جنہوں نے بقائمی ہوش وحواس کئی دہائیوں پر محیط اِس پاکستانی قوم کو ’خاندانی سیاس داؤ پیج کے جمہوریت ‘ کا غلام بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی قوم اگر کبھی اِس ’غلامانہ جمہوریت ‘ کے خلاف کہیں مزاحم ہونے کے لئے خود کو آمادہ کرنے کا سوچتی بھی ہے تو یہ نااہل اور بے بصیرت مگر بے پناہ مالدار ہونے کی بناء پر اپنی قوت وحشمت کے فریبی نعروں سے ہمیں یہ کہتے سنائی دیتے ہیں ’نہیں نہیں‘ یہ غلام جمہوری قوم ابھی سو رہی ہے کیوں اِن کی نیندیں خراب کی جائیں اِنہیں یونہی سونے دو، ہوسکتا ہے یہ اپنی جمہوری آزادی کا کوئی خواب دیکھ رہے ہوں ‘ پاکستانی قوم کو جگانے والے کب میدان میں اتریں گے تاکہ قوم اپنی آنکھیں ملتی ہوئی اُٹھ کھڑی ہو اور پاکستان میں انگڑائی لینے والی نئی سیاسی قیادت اِن نااہل اور بے بصیرت بلکہ انتہائی کرپٹ ناکارہ نام نہاد سیاسی لیڈروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُنہیں یہ کہے ’اِس سوتی ہوئی قوم کے ہر فرد کو اب جاگنا پڑے گا تاکہ وہ صرف اپنی جمہوری آزادی کے خوابوں میں پڑی سوتی نہیں رہے اُس کو جگا کر اُس کے ساتھ ہونے والی سیاسی ناانصافیوں کے ازالے کے لئے جمہوری آزادی کی دوٹوک لہجہ میں بات کرنے کا یہ بہترین وقت ہے گزشتہ چند برسوں میں جمہوریت کے نام پر قوم کے ساتھ دھوکے پر دھوکہ ہوتا رہا قوم کو کیسے کیسے سیاسی فریب نہیں دئیے گئے ؟ قوم کے مذہبی جذبات احساسات کو اِن ’بدقماشوں‘ کتنے فرقوں میں منقسم کردیا ذات برادری کے سماجی تفرقہ اور معاشرتی طبقات کے کئی ظالمانہ نظام کھڑے کردئیے گئے کہ یہ سب کچھ ’نصیبوں ‘ میں لکھا ہوا ہوتا ہے 98% پاکستانیوں کے لئے ایک قانون اور صرف2% اشرافیہ کے لئے علیحدہ قانون‘آخر کب تک قوم یونہی پستی رہتی ؟ کبھی نہ کبھی تو اہلِ وطن سبک دوش ہوں گے غلامی کے اُ س سیاسی بوجھ سے جسے کئی دہائیوں سے اُن کے بنیادی جمہوری حقوق کو غصب کرنے والے سیاست دانوں نے ’صبر ‘ کے نام پر اُن پر لادا ہوا ہے‘ چاہے زرداری کا عہدِ سیاست ہو یا میاں برادران کا دورِ حکومت ‘ کوئی قوم کے سامنے سیاسی شہیدوں کے نام کے نوحے اور مرثیہ پڑھتا ہے تو کوئی معاشی واقتصادی ترقی کی نوید سنا کر قوم کو بیچ کھاتا ہے جمہوریت کے نام پر سیاسی دکانداریاں اب ’میلینم ‘کاروبار کی شکل اختیار کرتی جارہی ہیں قوم کے سامنے فی الفور کوئی تیسرا متبادل سیاسی راستہ جو اگر کہیں قوم کو نظرآرہا ہے اُسے اب کسی نے روکنے کی کوئی کوشش کی تو پھر قوم کے بپھرتے ہوئے طوفانی سیلاب کی موجوں کو شائد کوئی طاقت روک نہ پائے لہذاء ملک میں پہلی فرصت میں قانون وانصاف کی عملداری کو یقینی بنانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کٹھن سے کٹھن دوٹوک مشکل ترین فیصلے کرنے کے اِس وقت کو ضائع نہ کیا جائے عدلیہ اور فوج صرف دو ایسے آئینی ادارے قوم کے سیاسی اطمنان کو یقین دلانے کے لئے باقی بچے ہیں فوج اپنی جگہ اپنی پیشہ ورانہ مہارت و عملی صلاحیت سے ملک کی مغربی سرحدوں پر پھیلی ہوئی اپنی تاریخ کی بدترین دہشت گردی سے نمٹ رہی ہے تاکہ ملک کی سرحدوں کو محفوظ بناکر ملک کے یقینی تحفظ کے ثمرات حاصل کیئے جاسکیں اب عدلیہ ملک میں جاری سیاسی بحرانوں کا پُرامن آئینی حل جتنی جلد ہوسکے نکالے بڑے افسوس کامقام ہے کہ آج پاکستان کی سیاسی تاریخ اپنے آپ کو بقول ہمارے معزز صحافی دوست جاوید صدیق کے ’زعمِ باطل ‘ میں مبتلا اُن لوگوں کے سامنے دہرارہی ہے جو تاریخ کا علم ہی نہیں رکھتے!! ۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top