ستتر سال۔۔۔متاع کارواں لُٹتا رہا اور احساس زیاں مٹتا رہا

نغمہ حبیب
سفرطویل بھی تھا،مشکل بھی،صبر آزما بھی اور کٹھن بھی لیکن اتنا ہی ارادہ بھی مضبوط تھا،رہنما بھی پُر عزم اور کارواں بھی ثابت قدم اور اسی لیے کامیابی نے سب کے قدم چومے۔سفر تو بہت پہلے سے شروع ہو چکا تھا مطالبہ بھی واضح تھا لیکن نہ منزل کا تعین تھا نہ راستے کا تاہم فیصلہ ہو چکا تھا کہ اپنی شناخت حاصل کرنی ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے طریقے اور اپنی اپنی قوت کو لے کر دشمن سے بر سر پیکار تھا لیکن ان سب کی یکجائی ضروری تھی اور 22۔23مارچ1940 کو یہ تمام مخلص لوگ مل کر بیٹھے اپنی قوت کو یکجا کر کے ایک سیدھا راستہ متعین کیا ایک ایسا راستہ جس میں کجی نہیں تھی، رکاوٹیں بہت تھیں لیکن رکاوٹیں جذبے کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی اور ایسا ہی ہوااور پاکستان بن گیا۔پاکستان کا معر ض وجود میں آجا نا ہی ایک معجزہ تھا۔مسلمان برصغیر میں بہت بڑی تعداد میں بس ضرور رہے تھے لیکن وہ اس ملک کی اکثریت نہیں تھے اور نہ ہی وہ سیاسی، معاشی یا تعلیمی لحاظ سے بہت مضبوط اور مستحکم تھے اور اُن کی حکومت کا چھن جانا بھی ان ہی و جوہات کی بنا پر تھا۔بلاشبہ کہ وہ اس خطے کے طاقتور ترین حکمران تھے مگر آپس کی چپقلشوں اور نا چاقیوں نے انہیں عرش سے فرش پر لاپھینکا تھا لیکن جب مسلمانوں کو اپنی کمزوریوں کا احساس ہوا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ وہ مکافات عمل سے گزر رہے ہیں اور سب سے برھ کر اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا،اپنے زوال کی وجوہات کو مان لیا تو راستہ بھی خود بخود سیدھا ہو گیا جو منزل پر جا کر رُکا۔23مارچ 1940کی قرار داد دراصل خود شنا سی کا احساس اور اعلان تھا اپنی ایک قوم ہونے کا احساس تھا اور دوسری قوم سے اپنی جدگانہ تشخص کی پہچان تھا۔جب قائداعظم نے واضح کیا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں ان کا مذہب، ر سم ورواج، رہن سہن، تہوار،غمی خوشی کا انداز سب الگ ہیں تو پھر ہم کیوں ان کے زیر تسلط رہیں کیوں نہ اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کے لیے ایک الگ گھر، الگ ملک ہو۔ یہ ایک ایسے ملک کا مطالبہ تھا جہاں زندگی اپنے مذہب اور مرضی کے مطابق گزرے اوریہی وہ طاقت تھی جس نے بر صغیر کے مسلمانوں کو وہ قوت عطاکی جس نے پاکستان بنایا۔پاکستان ایک خطہء زمین ہی نہیں تھا،یہ اپنا اختیار تھا، اپنا نظریہ تھا، اپنا تشخص تھا لیکن افسوس کہ میرِ کارواں قائد اعظم محمد علی جناح کی جلدی رحلت نے اسے خود غرضوں کے ہاتھ میں دے دیااور ہر ایک نے اصل نظریہ اور اصل حصول مقصد کو بھلا کر اپنا نظریہ اس پر مسلط کرنے کی کوشش کی، کبھی نظریہ ضرورت حاوی ہوتا رہا اور کبھی شخصیات اور یوں ہم مقصد سے ہٹتے رہے۔پاکستان جو بڑی قوت کے ساتھ بنا تھا بلکہ معجزاتی طور پر بنا تھا آگے بھی بڑھا تھا اور دُنیا اس کی مثال دیتی تھی اس کا شہر کراچی دُنیا کے لیے ایک ماڈل سٹی تھالیکن معاشرے نے اس رفتار سے ترقی نہیں کی اوروقت کے ساتھ ساتھ اپنی روایات مظبوط ہونے کی بجائے تنزلی کا شکار ہوتی رہیں، متاع کارواں لُٹتا رہا اور احساس زیاں مٹتا رہا،عوام سے لے کر حکمران تک سب بے حس ہوتے گئے ہاں ہر ایک اپنی عظمت کے گن ضرور گاتا رہا۔دو قومی نظریہ اندرا گاندھی تو کہنے کے باوجود بحیرہء عرب میں غرق نہیں کر سکی کیونکہ وہ ایک حقیقت تھا اور اس کے ملک میں اب بھی مسلمان صرف مسلمان ہے اور ہندو بھارتی ہے جو وہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے لیکن پاکستان میں یہ ایک فیشن بن گیا ہے اور دانشوری کی نشانی بن گیا کہ جو دو قومی نظریے کے خلاف بات کرے وہی مفکر وہی عظیم دانشور ہے، بات تو یہاں تک بھی پہنچی کہ”نظریہ پاکستان کا خالق اقبال نہیں“ ہندوستان کی محبت میں یہاں تک بھی پہنچی کہ سرحد تو بس ایک لکیر ہے کہنے والا یہ بھی بھول گیا کہ یہی لکیر کھینچنے کے لیے تو ہزاروں لاکھوں جانیں گئی یہی لکیر ہی تو تھی جو تشخص کا باعث بنی تھی یہی لکیر ہی تو جہاں نہیں ہے تو بیس کروڑ مسلمان اُس ملک میں بے بس ہیں جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے وہاں یہی لکیر ہی تو نہیں ہے اسی لیے تووہ گائے کو ذبح نہیں کرسکتا اور مری ہوئی گائے دیکھ کر اسے مسلمانوں کا جُرم سمجھ کر اُن کا قتلِ عام کر دیا جاتا ہے، بات تو یہاں تک بھی پہنچی کہ حاکم وقت ہندوستان کی محبت میں یا اپنی تجارت کی محبت میں کہتا ہے کہ آلو گوشت وہ بھی کھاتے ہیں اور ہم بھی لیکن کہتے وقت یہ بھول گیا کہ کچھ گوشت گائے کا ہے اور کچھ گائے کا نہیں۔ یہ تو ایک پہلو تھامقصد سے ہٹنے کا اوراپنا نظریہ چھوڑنے کا دوسرا پہلوبھی کچھ کم بھیانک نہیں وہی پاکستان جو ہر غرض سے بالاتر ہو کر بنایا گیا تھا جس کو بنانے والوں نے نہیں دیکھا کہ اْن کا گاوئں ان کاشہر اس مملکت خداداد کا حصہ بنے گا یا نہیں اور یہ بھی نہیں سوچا کہ اگر وہ پاکستان جا رہے ہیں تو ان کی جائیدادیں جاگیریں وہیں رہ جائیں گی جہاں وہ دوبارہ جا بھی نہیں پائیں گے اور اگر گئے تو حق ملکیت کھو چکے ہوں گے، بات یہاں تک بھی پہنچی کہ یہاں حکمرانوں سے لے کر عوام تک نے ہر چیز کو صرف اپنی ہی ملکیت سمجھا پیسہ بنانے کے لیے وہ بھی کیا جس کا معاشرے سے آگے خدا اور رسول ﷺ بھی اجازت نہیں دیتے۔ ہر ایک نے نام کے ساتھ محمد ضرور لگایا لیکن کیا اُن کی تعلیمات کے خلاف۔ یہاں میں صرف حکمرانوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرارہی عوام بھی کچھ پیچھے نہیں اگرحکمران پانامہ اور سوٹیزرلینڈ کے لیول کی کرپشن کرتے ہیں توگوالا دودھ میں پانی ملانے کی کرپشن کر رہا ہے بلکہ اب تو بات یہاں تک بھی پہنچی ہے کہ سرف اور دوسرے غیر خوردنی اشیاء سے دودھ بنایا جائے۔ ریڑھی پر سیب بیچنے والا سیب گھما کر آپ کو چکر دے کر اور داغ لگا ہوا سیب صاف کے نرخ آپ کو بیچ دے۔یقینا اس ملک میں بہت سے اچھے لوگ بھی ہیں ایمانداراور اپنی ذات سے بڑھ کر ملک سے محبت کرنے والے۔ اس کے نوجوان اب بھی اس کی سرحدوں پر اسی کے لیے راتیں جاگ کر گزارتے ہیں اور بڑی محبت سے جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔اس کے لیے نوکری کی ضروریات سے آگے بڑھ کر کام کرنے والے انجینئر، ڈاکٹر، استاداور کارخانے دار، پولیس، فوجی اور سول افسران بھی موجود ہیں لیکن وہ اُس وقت بے بس ہو جاتے ہیں جب اُن کے تمام اصولوں پر موقع پرستوں کا ایک ہی اصول غالب آجاتا ہے کہ اپنے مفادات تو اپنے ہیں ملک تو چل ہی رہا ہے۔میں نااُمید ی کی بات نہیں کر رہی لیکن ہمیں آئینہ اپنے سامنے ضرور رکھنا چاہیے اور خاص کر قومی دنوں پر تو اس میں اپنا عکس ضرور دیکھنا چاہیے تاکہ تاریخ کے راستے پر گزرتے ہوئے جو غلطیاں ہو چکی ہیں اُنہیں بغور دیکھا جا سکے اور اپنی آگے کی راہیں سیدھی کی جائیں اور آئندہ وہ غلطیاں نہ دہرائی جائیں جن کی وجہ سے قوم کبھی قومی طور پر تنزلی کا شکار ہوئی اور کبھی بین الاقوامی طور پر شرمندہ ہوئی۔23مارچ 1940سے23مارچ1917تک ستتر سال کا یہ سفر ایک صدی سے دوسری صدی میں داخلے کا سفر ہے اب قوم کو ذہنی طور پر بالغ ہو جانا چاہیے اور یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری بقاء صرف ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے اگر ہم نے قومی طور پر ذہنی بلوغت کا ثبوت نہیں دیاتو ہم بین الاقوامی برادری میں وہ مقام دوبارہ حاصل نہیں کر سکتے جو ہم نے 23مارچ کے تاریخی فیصلے کے بعد 1947میں آزاد ی حاصل کر کے کیا۔ پاکستان نے اُس وقت اپنا وجود قائم رکھا جب اس کے اثاثے روکے گئے،جب فوجی سازو سامان روکا گیا، جب پانی روکا گیا،جب ایک نوز ائیدہ مملکت کے اوپر جنگ مسلط کی گئی،اس کی شہ رگ یعنی کشمیر پر قبضہ کیا گیا، جب اس کے مخالفین یہ سمجھتے رہے کہ یہ بہت جلد مسائل سے گھبرا کر خاکم بدہن اپنا وجود کھودے گا تب بھی یہ قائم رہا۔دکھ کی وہ گھڑی بھی آئی جب اپنوں کی غلطیوں، غداریوں اور غیروں کی سازشوں کے باعث اس کا ایک بازوکٹا لیکن دلگر فتہ باقی ماندہ پاکستان پھر اُٹھ کر کھڑا ہوا۔آج بھی ہم دہشت گردی سے برسرپیکارہیں ہم بحیثیت قوم بہادر اور نڈر ضرور ہیں لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نہ اپنی غلطیاں تسلیم کرتے ہیں اور نہ ان سے سبق سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر اس 23مارچ کو ہم نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ہم ہر سانحے ہر حادثے کے بعداپنی بہادری کا ذکر کر کے خود کو عظیم ثابت کرنے کی بجائے ان حادثوں کی وجوہات کو دور کرنیکی کوشش کریں گے تو میرے خیال میں ہم اس قومی دن کا حق ادا کر سکیں گے۔ستتر سال بعد اگر اس 23مارچ کو ہم اپنے نظریے کی طرف واپس پلٹنے کی قرارداد منظور کر لیں، اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی قرارداد منظور کر لیں،اگر ہم یہ عہد کرلیں کہ ہم اپنا مفاد پس پشت ڈال کر ملکی مفاد کے لیے کام کریں گے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی بلکہ ہم ہردشمن کو شکست دے سکتے ہیں بالکل اُسی طرح جیسے ہم نے آج سے ستتر سال پہلے ہندو اکثریت اور انگریز حکومت کو شکست دی تھی۔اللہ تعالیٰ ہمیں ایک بار پھر ایسا کرنے کی طاقت، قوت، عزم اورثابت قدمی عطا کرے، آمین۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top