مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی اصل کہانی

bangladeshمحمد عبد الحمید

میں کراچی کی میکلوڈ ر پر مشہور عمارت، محمدی ہائوس، میں ایڈورٹائیزنگ سروسز کے نذیر صوفی کے دفتر میں بیٹھا تھآ۔ ہم ان دستاویزی فلموں کے بارے میں باتیں کر رہے تھے، جو صوفی صاحب ریلوے کے لیئے بنا رہے تھے۔ اتنے میں بالکل سامنے سڑک پار واقع گرنڈلیز بینک کا منیجر آ گیا۔ وہ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد کہنے لگا، “ہم چاہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کے اخباروں میں شائع ہونے والے ہمارے اشتہارات وہیں سے جاری ہوا کریں۔” ایسا ہونے سے صوفی صاحب کی فرم کا نقصان ہوتا، کیوں کہ وہ بینک کے اشتہارات کے لیئے ایجنسی تھی۔ چنانچہ وہ کہنے لگے، “اس کی کیا ضرورت ہے؟ آپ سہ پہر کو بھی اشتہار دیں تو پی۔ آئی۔ اے۔ سے اسی شام ڈھاکہ پہنچ جاتا ہے اور اگلی صبح کے اخبارات میں شائع ہو جاتا ہے۔”

 تاہم بینک مینیجر مصر رہا۔ جب اس نے دیکھا کہ صوفی صاحب کسی طرح نہیں مان رہے تو بولا، “اصل میں بات یہ ہے کہ ہمیں لندن میں صدر دفتر سے ہدایات ملی ہیں کہ آئندہ نہ صرف اشتہارات بلکہ مشرقی پاکستان میں بینک کا سارا کاروبار وہیں سے کنٹرول ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ مشرقی پاکستان الگ ہونے والا ہے۔ اس سے پہلے بینک کا وہاں کا کاروبار ڈھاکہ کی برانچ سنبھال لے گی۔”

یہ اگست 1968 کے پہلے ہفتہ کی بات ہے، جن دنوں ایوب خاں کے اصلاحات و ترقی کے دسویں سال کا جشن منایا جا رہا تھا، جو 27 اکتوبر کو ختم ہونا تھا۔ اس وقت ملک بالکل پرسکون تھا۔ اچانک سال کے اواخر میں ایوب خاں کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہو گئی۔

حکومت بدلنے کے لیئے بعد کی ہر تحریک کی طرح یہ بھی امریکی یسہ سے چلائی جا رہی تھی۔ جمہوریت اور مہنگائی کے نعروں میں زیادہ جان نہیں تھی۔ (چینی سوا روپے سے صرف ڈیڑھ روپے کلو ہو گئی تھی۔) چنانچہ چند ہفتوں ہی میں احتجاج ماند پڑ گیا۔ اس پر تحریک چلانے والوں نے جنوری میں مشرقی پاکستان میں شدت پیدا کی۔ مولانا عبد الحمید بھاشانی کو، جو ہر احتجاج میں پیش یش ہوتے تھے، رات کی تاریکی میں بھاری رقم دی گئی۔ انھی کی وجہ سے پہلی بار مغربی پاکستان میں بھی “گھیرائو، جلائو” کا نعرہ لگنے لگا۔

مشرقی پاکستان میں بھی تحریک چند ہفتوں بعد ہی ٹھنڈی پڑ گئی لیکن ایوب خاں کو تشویشناک خبریں دی جا رہی تھیں۔ مغربی پاکستان پولیس کی سپیشل برانچ کے سربراہ، آغا محمد علی، صورت حال کے بارے میں ویسی ہی خبریں دیتے تھے، جو ان کے بھائی، آرمی چیف، جنرل یحیی خاں، چاہتے تھے۔ ایوب خاں توڑ پھوڑ اور گھیرائو جلائو کی خبروں سے پریشان تھے۔ انھی دنوں کسی ملاقاتی نے انھیں تسلی دینے کی کوشش کی کہ حالات جلد ٹھیک ہو جائیں گے تو صدر نے نہائت افسردگی سے کہا، “اب کیا رہ گیا ہے؟ میرے پوتے اور نواسے صدر ہائوس کے عملہ کے بچوں کے ساتھ مل کر “ایوب کتا، ہائے، ہائے” کے نعرے لگاتے ہیں۔” چنانچہ انھوں نے فروری 1969 میں پاکستان ٹائیمز کے ایڈیٹر، زیڈ اے سلیری، سے انٹرویو میں کہا کہ وہ اگلا صدارتی الیکشن نہیں لڑیں گے۔ اس کے بعد ان کے خلاف تحریک کا جواز ختم ہو گیا۔ لیکن اسے ختم کرنے سے امریکی منصوبہ پر عمل مکمل نہ ہوتا۔

یحیی خاں نے صدر سے کہا کہ انھیں اختیارات دے دیئے جائیں تو وہ تین ماہ میں امن بحال کر دیں گے۔ ایوب خاں نے ایک خط کے ذریعہ آرمی چیف کو اختیارات تو دے دَیئے لیکن صدارت سے استعفا نہ دیا۔ اگر دیتے تو آئین کے مطابق قومی اسمبلی کے سییکر کو قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالنے کا کہتے۔ یحیی خان نے خود ہی مارچ کے آخر میں مارشل لا لگا دیا۔ یہی نہیں، آئین بھی منسوخ کر دیا، جس سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے سیاست کاروں کی گول میز کانفرنس ناکام ہو چکی تھی، جو پارلیمانی نظام بحال کرانا چاہتے تھے۔ ایوب خاں نے کہا کہ قومی اسمبلی سے آئین میں ترمیم کرا لیں۔ سیاست کاروں کو اکثریت ملنے کی امید نہ تھی۔ ان کے ییدا کیئے ہوئے بحران سے یحیی خاں کا رستہ صاف ہو گیا۔

اگر آئین منسوخ نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ صرف دس ماہ بعد جنوری 1970 میں صدر کا انتخاب ہونا تھا۔ وہ کسی بھی صوبہ سے منتخب ہو جاتا اور نظام حکومت چلتا رہتا۔ لیکن ہمارے سیاست کار پارلیمانی نظام کے بغیر رہ نہیں سکتے کیوںکہ اسی سے انھیں ہر سطح پر ہر قسم کی لوٹ مار کا موقع ملتا ہے۔ اسی کی خاطر انھوں نے مارشل لا لگوانے سے بھی گریز نہ کیئا۔ ویسے اٹھتے بیٹھتے جمہوریت کی مالا جبتے رہتے ہیں اور جرنیلوں کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔

آئین کی منسوخی کے بعد قومی اسمبلی میں دونوں صوبوں کی مساوی نمائندگی ختم کر دی گئی۔ ون یونٹ بھی توڑ دیا گیا اور صوبے بحال کر دیئے گئے۔ اس طرح یقینی بنا دیا گیا کہ زیادہ آبادی کی بنا پر مشرقی پاکستان کی قومی اسمبلی میں ہمیشہ اکثریت رہے گی۔ وہ ایک دو صوبوں کو بھی ساتھ ملا سکے گا۔ سیاست کاروں اور میڈیہ نے اس کی مخالفت نہ کی۔ انھوں نے مشرقی پاکستان میں فوجی کاروائی کی مخالفت تو کجا اس کی بھرپور تائید کی۔ بعض جوشیلے تو یہاں تک کہتے تھے کہ بنگالیوں کو ایسا سبق سکھایا جائے کہ سو سال تک نہ بھولیں۔ اصغر خاں کے سوا ایک آواز بھی مخالفت میں نہ اٹھی۔

اگر فوجی کاروائی جاری رہتی تو بھی علیحدگی میں بڑا عرصہ لگتا۔ اندرا گاندھی کا کہنا تھا کہ دس سال تک لگ سکتے ہیں۔ اگر مغربی پاکستان کا محاذ نہ کھولا جاتا ( اور کھولا گیا تھا تو پوری طاقت سے لڑائی کی جاتی) اور نیازی کی بجائے کوئی محب وطن جرنیل ہوتا تو دیر تک مقابلہ کیا جا سکتا تھا۔ بلکہ ہندوستان کے حملہ کے باوجود حالات کو جنگ بندی تک لایا جا سکتا تھا۔

ویسے بھی علیحدگی بذات خود بری بات نہیں۔ سگے بھائی بھی الگ ہو جاتے ہیں، گو سمجھدار تھانہ کچہری میں خوار ہونے کی بجائے آپس میں حساب کتاب کر لیتے ہیں۔ دنیا میں صرف ایک اور مثال متحدہ عرب جمہوریہ کی ہے جو صدر جمال عبد الناصر کے دور میں مصر اور شام کو ملا کر بنایا گیا۔ (ہماری طرح ان کے درمیان بھی ایک دشمن ملک تھا۔)۔ یہ اتحاد 1958 میں بنا اور صرف تین سال بعد ختم ہو گیا۔ ہم تو 25 سال تک اکٹھے رہے۔

اگر قومی اسمبلی کا اجلاس بلا لیا جاتا اور اکثریت کی بنا پر شیخ مجیب الرحمان وزیر اعظم بن جاتے تو  علیحدگی کی آوازیں دب جاتیں۔ لیکن اس طرح بھٹو وزیر اعظم کبھی نہ بن سکتے۔ یحیی خاں کا صدر بنے رہنا بھی یقینی نہ ہوتا۔ بڑے چھوٹے لیڈر غیرملکی طاقتوں کے اشاروں پر چلتے رہے۔ ذاتی اغراض ملک کے مفاد پر حاوی ہو گئیں۔

ہر سال دسمبر آتے ہی ماتم شروع ہو جاتا ہے۔ مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں کہ ہمارا ملک ٹوٹ گیا۔ کوئی ذوالفقار علی بھٹو کو ذ٘مہ دار ٹھہراتا ہے، کوئی یحیی خاں کو اور کوئی شیخ مجیب الرحمان کو۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ اس وقت کے صحافی اور سیاست کار اصل مجرم تھے، جنھوں نے نہ عوام کو حقائق بتائے اور نہ حکمرانوں کو ملک دشمن فیصلوں سے روکا۔ (مانا کہ سنسر تھا لیکن فوجی کتنوں کو گرفتار کر سکتے تھے؟) مشرقی پاکستان میں فوجی کاروائی کے خلاف مغربی پاکستان میں نہ کوئی احتجاج ہوا، نہ کوئی جلوس نکلا، نہ جلسہ ہوا۔ نہ ہی اخباروں میں کچھ لکھا گیا۔ کسی نے نہ بھٹو کو مجبور کیا کہ ڈھاکہ جائے اور نہ کسی نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔

اب کیا کرنا ہے؟ ماتم کرتے 40 سال سے زیادہ ہو گئے۔ کیا ہمیشہ یہی کرتے رہیں گے؟ ملک الگ الگ ہو گئے لیکن دل تو ایک ہیں۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا لیکن ہندو کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود وہاں رہنے والے ویسے ہی مسلمان ہیں جیسے علیحدگی سے پہلے تھے۔ اگر ہم نے 1946 میں صرف مسلم ہونے کی بنا پر دو کی بجائے ایک ملک بنانے کا فیصلہ کیا (وہ بھی بنگالی مسلمانوں کے اصرار پر) تو کیا آج پھر سے دو مسلم ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب نہیں لایا جا سکتا؟ ایک ملک نہ سہی، دو ملکوں کی کنفدیڈریشن تو بن سکتی ہے۔

اس سسلسلہ میں ایک دو دن بعد ایک مسودہ آئین آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ اسے اپنا کر آغاز کیا جا سکتا ہے۔ اس میں تجویز کیا گیا ہے کہ کس طرح دونوں ملک اپنی اپنی خّودمختاری اور انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے “پاک دیش” کے نام سے کنفیڈریشن بنا سکتے ہیں۔

 ​

الله حافظ!

محمّد عبد الحمید 
مصنف، “غربت  کیسے مٹ سکتی ہے” (کلاسک پبلشر، لاہور)

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top