یوم ِ شہدائے کشمیر“۔انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں”

 سیّد نا صر رضا کاظمی
عظیم اور بے مثال جمہوریت کی بindian army in Kashmirنیادیں کن اجزاء سے مزین ہوتی ہیں عظیم اور بے مثال جمہوریت کی تعریف میں عوامی انسانی حقوق کی ضمانت کی شرائط کیا ہوسکتی ہیں ؟فی زمانہ دنیا میں جہاں بھی اِ نسانی خوبیوں اور ایسی بے مثال اور باعث ِ تقلید انسانی خواہشات پر مبنی عظیم اور بے مثال جمہوریتوں کا نظام قائم ہے اُن جمہوری ممالک میں کیا کبھی ایسا کڑا وقت بھی آتا ہے جب انسانی آزا د یو ں کو پابند ِ سلاسل کردیا جائے اور اگر پابند ِ سلاسل کیا بھی جاتا ہے اُن کی قومی آزادی کی صداؤں کو بزور ِ طاقت دبا یا بھی جا تا ہے اور وہاں کے محکوم ومجبور باشندوں کے بنیادی حقوق پائمال کئے جاتے ہیں تو پھر اُن ممالک میں قائم جمہوریتوں کو ”عظیم اور بے مثال جمہوریت“ کیسے اور کن اصولوں پر تسلیم کیا جائے؟ ہنوزیہ سوال فلسطین سے لے کر مقبوضہ ِ کشمیر کے اُن بے باک شہیدوں کا اُن عالمی قوتوں سے یہ ایک سوال ہے ایک دوبرس کی بات نہیں بلکہ نصف صدی سے بھی زائد زمانہ گزر گیا فلسطین کے مسلمان بھی اپنی سرزمین سے بے دخل اور مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارتی فوجوں اور دیگر سیکورٹی فورسنز نے وہاں اپنا غاصبانہ قبضہ بزور قوت وطاقت جمایا ہوا ہے بلکہ بھارت نے نام نہاد ”عظیم جمہوریت‘ کے نام پر کشمیرمیں انسانی حقوق اور کشمیریوں کی قومی آزادیوں کو بیدردی کے ساتھ کچلنے کے لئے اپنی سیکورٹی فورسنز کو نہایت ہی ظا لمانہ اور وحشیانہ طرز ِ عمل اختیار کرنے کی کھلی چھو ٹ دی ہوئی ہے آئے دِن برطانیہ‘ امریکی اور مغربی میڈیا کے معتبر ذرائع ِ ابلاغ بھی کشمیری مسلما نوں کے ساتھ ہو نے والی نئی دہلی کی اور ریاستی ظلم و ستم کی خبریں اور تصویریں اپنے میڈیا میں نشر اور شائع کرتے رہتے ہیں مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی‘ریاستی ظلم و ستم اور دہشت گردی کی بنیادی انسانی حقوق کی جدجہد کی یہ المناک کہانی 13 جولائی 1931 ء کو شروع ہوئی تھی جب ہزاروں کشمیری مسلمان ایک جلوس کی شکل میں ریاستی ڈوگرہ حکمرانوں کو جراّت مندی اور بے خوفی سے لکارتے ہوئے ایک احتجاج کی صورت میں یہ مطالبہ لے کر سری نگر جیل کی طرف بڑھ رہے تھے کہ ’ایمانی جذبوں سے سرشار یوپی کے ایک جو شیلے نوجوان عبد القدیر پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلا یا جائے‘ آزادی ِ کشمیر کا مسئلہ صرف کشمیریوں کا مسئلہ نہیں ہے‘ بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کا اجتماعی مسئلہ تھا ورنہ کہاں کشمیر کی آزادی و خود مختاری کی زور دار تحریک اور کہاں امروہہ (یوپی) کے رہنے والے ایک نوجوان مسلمان عبد القدیر پر کشمیریوں کی آزادی کی تحریک میں اتنی سرگرمی کے جذبوں کے ساتھ اتنے متحرک اور پر خلوص انداز سے شرکت کرنا کیایہ ثابت نہیں کرتا چاہے کشمیری مسلمان ہو ں یا اندورن ِبھارت کے رہنے والے مسلمان سب ایک جسم ِ واحد کی طرح سیسہ پلائی دیوار کی مانند ایک ہیں یہ ارشاد ِ عالیہ کسی دنیاوی جاہ و حشمت کی تمنا و آرزو رکھنے والے عام انسان کے نہیں،بلکہ عالم ِ انسانیت کے محسن ِ عظیم اور مسلمانوں کے پیغمبر نبی ِ آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ میں یہ ارشاد فرما یا تھا کہ ”تمام مسلمان آپس میں جسد ِ واحد کی مانند ہیں“ کشمیری مسلمانوں نے اپنے برحق مطالبہ کی خاطر اپنی قیمتی جانوں کو اپنے نبی ِ برحق ﷺ کے فرمان ِ عالیہ پر اپنے بائیس کشمیری مسلمانوں شہیدوں کے ساتھ اپنی قیمتی جانیں اپنے خالق ِ حقیقی کی بارگاہ میں پیش کردیں شہادت کے اِس موقع پر ایک شہید نے آخری سانس لیتے ہوئے مجمع میں موجود ایک نوجوان شیخ عبد اللہ سے یہ کہا تھا ”شیخ صاحب! ہم نے اپنافرض ادا کردیا ہے اب آپ اپنا فرض ادا کریں“ قافلہ ِ آزادی کے اس سفر کا یہ آغاز تھا چونکہ کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ نے اپنے ہندو ہونے کی وجہ سے ریاست جموں وکشمیر کا الحاق آزاد مسلم ریاست مملکت ِ خداد پاکستان کے ساتھ نہیں ہونے دیا،جبکہ آزادی کے منظور شدہ چارٹر کے تحت بر صغیر کے مسلمان اکثریتی علاقوں کے رہنے والوں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ اپنی مرضی کے تحت بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ جانا چاہیں تو جا سکتے تھے،کشمیر میں مسلمان کی اکثریت تھی اِس لئے دنیا کے جمہوری اصولوں کے پیش ِ نظر ریاست جموں وکشمیر کے اصل مسلمان باشندوں نے اخلا قی و آئینی طور پر اپنے الحاق کا ابھی فیصلہ کرنا تھاکہ کشمیر کے ہندو ڈوگرا مہاراجہ نے کشمیری مسلمانوں کی مرضی اور منظوری کے بغیر ریاست کے مستقبل کو بھارت کے حوالے کردیا اُس کا یہ احمقانہ فیصلہ 3 /جون1947 کے تقسیم ِ ہند کے منظور کردہ پلان کے خلاف تھا اور ریاستی اقوام کی ملی وثقافتی مسلمہ اُصولوں کے بھی خلاف جرم تھا افسوس صدہا افسوس! کئی دہائیاں گذ رجانے کے بعد اُس ہندو ڈوگرا مہاراجہ نے جہاں پر اپنے ظلم و ستم کا سلسلہ شروع کیا تھا وہیں سے آج تک بھارتی غاصب حکمرانوں نے ریاستی دہشت گردی اور تشدد میں اُس سے زیادہ تیزی اور سرگرمی سے اپنے ظلم و ستم کے بازار کو گرم کررکھا ہے جوں جوں بھارتی فوجیوں کے ظلم و ستم اور تشدد میں تیزی آتی جارہی ہے کشمیری عوام کی آزادی کی لہریں اور زیادہ جوش مار رہی ہیں،کشمیریوں کی بے چینی اور گھٹن میں جہاں اضافہ ہورہا ہے وہاں بھارتی حکمران اپنے تمام قومی وسائل اور طاقت کے سامراجانہ ذرائع کو کشمیر کی آزادی کو دبانے‘اُسے سرد کرنے میں جھونک رہے ہیں بھارتی غاصبوں کے نزدیک اُنہیں یقینا یہ امر باعث ِ ندامت اور شدید مایو سی سے دوچار کررہا ہوگا کہ اُس کا”کاسعمیٹکس جمہوری سسٹم“اب وہ دورس نتائج کا حامل نہیں سمجھا جا رہا جو کبھی ’عظیم جمہوریہ‘ ہونے کا دعویدار سمجھا جاتا تھا چونکہ حقیقت یہی ہے کہ جب تک وہ اپنے زیر نگیں کشمیری علاقوں کے محکوم عوام کے بنیادی حقوق کو صحیح معنوں میں تسلیم نہیں کر لے گا اُنہیں اُن کی اپنی مرضی ومنشا سے حق ِ رائے دہی نہیں دئے گا بھارت نہ تو سلامتی کونسل میں مستقل نشست حاصل کرنے کے خواب کو شرمندہ ٗ ِ تعبیر کرپائے گا اور نہ ہی نریندر مودی اپنے دیش بھارت کو بڑھتی ہوئی ہندو جنونیت کی خطرناک لہر سے بچانے میں کامیاب ہوگا ہر سال کی طرح آج 13 جو لائی 1931 کے شہدا کو جب ہم خراج ِ عقیدت پیش کررہے ہیں تو ہمیں بھارت کو یہ یاد دلانا ہوگا کہ وہ مقبوضہ کشمیر سے اپنی غاصب فوج کو فی الفور نکال لے بہادر،غیرت مند، اور دِلیر نو جوان کشمیری مسلمانو ں کا یہ مطالبہ کل بھی صحیح تھا اور آج بھی حقیقت کی طرح روشن ہے کہ غاصب بھارتی حکمران اب کشمیر کو چھوڑ دیں‘ کشمیریوں کو اپنی آزادی و خود مختاری کے ساتھ جینے کا حق دیدیں‘ چونکہ وقت ریت کی مانند اُن کے ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے تبدیلی ٗ ِ وقت نے آزادی ِ کشمیر کے اِس جائز مطالبے کی واضح برتری اور نمایاں احساس کو ہر دن کے طلوع ہونے والے سورج کی کرنوں کی طرح حق پر مبنی ثابت کردکھایا ہے پاکستان نے بارہاکشمیر کو ”غیر فوجی علاقہ“قرار د ینے کی تجویز کا اظہار کیا اُسے گو بھارت کی طرف سے پذیرائی نہیں ملی، اگر ِ پاکستان کی تجویز کے مطابق بھارتی افواج کشمیری علاقوں سے باہر نکل جائیں‘تو پھر 13 جو لائی 1931کو سر ی نگر جیل کے باہر جن بائیس شہداء نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ د یا تھا جس عظیم اور ناقابل ِ فراموش جدو جہد کا آغا ز کیا تھا وہ جدو جہد‘ وہ عظیم اور بے مثال قربانی بھارتی جارحیت پسندوں کی راہ میں پہاڑ کی صورت ہونے کا بڑا واضح اور ٹھوس ثبوت فراہم کر چکی ہے ہر سال کی طرح اِس برس بھی پاکستانی عوام اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ مکمل اظہار ِ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ پختہ عہد کرتے ہیں کہ پا کستانیوں کے دِل اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں پاکستانیوں اور کشمیری عوام کے درمیان نہ کل کوئی سر حد تھی اور نہ آج کوئی دراڑ ہے اور نہ آئندہ مستقبل میں کوئی ناقابل ِ عبور خلیج حائل ہوگی۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top