تھر پارکر‘‘ کا سلگتا ہوا صحراء ۔ اور پاک فوج کا مثالی کردار
Posted date: April 06, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
چند برس گزرے غالباً پچیس برس پہلے کی بات ہوگی جب سندھ کے دورافتادہ علاقوں مثلاً پنو عاقل اور سندھ کے جنوبی علاقہ تھرپار کر کے صحراء میں پاکستانی حکومت نے چھاونیاں قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو ملک بھر کے مختلف حصوں خاص کر سندھ اور بلوچستان میں لسانی تنظیموں نے بڑا پُرزور احتجاج کیا تھا وہ اِن علاقوں میں چھاونیاں قائم کرنے کے خلاف علاقائی عوام کو اُکسانے لگے ‘ اُنہیں بہکانے لگے کہ حکومت اُن کے علاقوں پر قبضہ کرلے گی یہاں فوج آجائے گی ایک طوفانِ بدتمیزی شروع ہوا یہ مسئلہ چونکہ خالصتاً ریاستِ پاکستان کی سلامتی کا مسئلہ تھا پنو عاقل اور تھرپار کر میں چھاونیاں قائم ہوئیں یہ جان کر آپ کو یقیناًحیرت ہوگی کہ سندھ میں ہمہ وقت لسانی تعصب کی سیاست کی اپنی دکانیں چمکانے والے بڑے وڈیروں اور جاگیر داروں کے بچے اِن چھاونیوں کے قائم کردہ ’پبلک تعلیمی اداروں ‘ میں تعلیم حاصل کر نے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی دوڑ میں رہتے ہیں اِن متذکرہ بالا علاقوں میں پاک آرمی نے بہترین کھیلوں کے میدان بنائے صحت کی اعلیٰ سہولتوں سے مزین مراکز قائم کیئے پختہ راستے بنائے کل تک جو پنو عاقل چھاونی کے مخالفین تھے آج وہ اِس چھاونی کی مہیا کردہ آسائشوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں یہ حال تھرپارکر کا تھا ملک کے اِس بے آب وگیاہ علاقہ ’چھور ‘ میں جب نئی چھاونی قائم کی گئی تو وہاں زندگی نام کی کوئی چیز نہیں تھی نہ پانی نہ بجلی نہ سڑکیں نہ عمارتیں نہ اسکول نہ پوسٹ آفس نہ صحت کے مراکز نہ اخبارات نہ ہوٹل اور نہ اسٹور وغیرہ چھور سندھ کا یہ علاقہ چھاونی قائم ہونے سے قبل ایک لق ودق صحرا تھا یاد رہے کہ صحرائے تھر دنیا کا نواں سب سے بڑا صحرا ہے گزشتہ دنوں دنیا کے اِس نویں سب سے بڑے صحرا کا ذکر تواتر کے ساتھ ملکی میڈیا کے ساتھ عالمی میڈیا میں بھی ہوا یہاں افسوس اور دکھ اِس بات کا ہے اور ہمیشہ رہے گا کہ سندھ کی صوبائی حکومت چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو یا سیاسی اتحاد کی حکومت اِن حکومتوں کے اعلیٰ ترین ذمہ داروں نے جہاں اور بہت سی ’بیڈ گورنس ‘ کی مثالیں قائم کی ہیں وہاں کسی بھی سندھ کی صوبائی حکومت نے نہ تو ’صحرائے تھر ‘ کے بے پناہ قدرتی وسائل سے فوری فائدہ اُٹھانے کی طرف توجہ کی اور نہ ہی تھرپارکر کے جفاکش اور محنتی عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لئے کوئی عملی قدم اُٹھانا ضرور ی سمجھا عام انتخابات کے دنوں میں بڑے بڑے نامی گرامی سیاست دانوں نے وہاں کے عوام سے ووٹ لینے کے لئے اُن کے ساتھ وعدے تو بہت کیئے مگر اقتدار میں آنے کے بعد اُنہیں یوں بھلا دیا جاتا رہا جیسا وہ کوئی وجود ہی نہیں رکھتے
سندھ کا ایک اہم شہر میر پورخاص دنیا بھر میں بہترین آم پیدا کرنے کے حوالے بڑی شہرت رکھتا ہے، میر پور خاص کسی وقت میں جغرافیائی اعتبار سے سندھ کا سب سے بڑا ڈسٹرکٹ ہوا کرتا تھا اب تھر پار کر کو ڈسٹرکٹ کا درجہ دیدیا گیا ہے اور مٹھی تھرپارکر کاضلعی صدر مقام ہے 19ہزار6 سو38 کلومیٹر رقبہ پر محیط اِس اہم جغرافیائی علاقہ کی سرحد بھارت کے بار میر اور جیسلمیر سے ملتی ہیں جہاں آئے روز بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کے ایجنٹ اپنی بہیمانہ سازشی مذموم سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں یہ وجوہ ہوگی یہاں پر چھور میں فوجی چھاونی قائم کی گئی اُوپر بات ہورہی تھی گز شتہ دنوں دنیا بھر کے میڈیا چیخ پڑے کہ تھرپارکر ضلع میں غذائی قلت اور مختلف وبائی بیماریوں میں کئی ہزار خاندان متاثر ہوئے سینکڑوں بچے موت کے منہ میں چلے گئے پورا تھرپار کر ضلع شدید خشک سالی کا شکار ہو یہ کوئی نئی بات نہیں تھی بقول سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے‘ یہاں اکثر خشک سالی ہوتی مگر ماہرین جب حکومت کی مجرمانہ غفلت کا اندازہ لگاتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِس بار حکومتی اہلکاروں نے غذائی اجناس کی تقسیم واری میں یقیناًکہیں کوئی ایسی کرپشن ضرور کی ہے جس کا بدترین خمیازہ تھر کے معصوم بچوں ‘ عورتوں اور عوام کی اکثریت کو بھگتنا پڑا مانتے ہیں ملکی میڈیا کی دہائی اپنی جگہ مگر ‘ جنابِ والہ! یہ بھی تو تسلیم کیجئے کہ ’چھور چھاونی ‘ اور ’ڈیپلو ‘ پلاٹون کیمپ کے جوانوں نے حکومت متاثرہ علاقوں تک پہنچنے سے قبل وہاں اپنے امدادی کیمپ قائم کردئیے تھے یہ ہی نہیں بلکہ چھور چھاونی کے کمانڈر نے اعلیٰ عسکری حکام کو تھر پارکر کے عوام پر چھا جانے والی اِس آفت کی مشکلات سے بروقت آگاہ کیا آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اِس کا خصوصی نوٹس لیا جس کا سریع الحرکت (فوری ) نتیجہ یہ نکلا کہ حیدرآباد گریزن سے بھی یکایک فوج متحرک ہوئی فوجی ڈاکٹر جن میں خواتین آفیسر ڈاکٹرز سمیت دیگر پیرا میڈیکل اسٹاف تھرپارکر میں ہر ایک متاثرہ جگہ پہنچ گئے جہاں طبی کیمپ قائم ہوئے، ملک کی پوری فوج نے آرمی چیف کی ہدایت پر اپنا ایک دن کا راشن اپنے تھر کے مصیبت میں مبتلا پاکستانی بہن بھائیوں کے لئے وقف کردیا فوج کے ایک دن کے راشن کو متاثرہ علاقہ کے عوام کے لئے وقف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر تھرپارکرکے ہر ایک متاثرہ خاندان کی پندرہ روز کی خوراک کا یقینی بندوبست ‘ صوبائی اور وفاقی حکومتیں جب اِس ’ڈیزاسٹر‘ کے ممکنہ نقصانات کا اندازہ لگانے کے لئے متحرک ہوئیں تو اُس وقت تک فوج نے ’فوری ریلیف ‘ کا اپنا فرض نبھا دیا تھا ،پاکستانی فوج کی اپنے عوام کی خدمت ’بروقت خدمت ‘ کی تاریخ بہت قابل ستائش ہے، دنیا کے غیر جانبدار میڈیا مانتے ہیں کہ پاکستانی فوج اپنے عوام کی خدمت کی ہر آواز پر ہمہ تن لبیک کہتی نظر آئی ہے پاکستان کے نجی میڈیا کا وہ حصہ جس میں بھارتی سرمایہ کاروں نے کھل کر اپنی سرمایہ کاری کررکھی ہے ایسے ’بکاؤ میڈیا ‘ ہاوسنز کے اپنے کچھ مفادات ہیں اُن کی کچھ تجارتی مجبوریاں ہیں پاکستان دشمن دولت مند میڈیا ہاؤسنز نے تھرپارکر کے عوام کی مصیبتوں اور مشکلات کے موقع پر افواجِ پاکستان کی طرف سے بروئےِ کار لائے جانے والے اِن عملی واضح خدمات کا ذکر اپنی متعصبانہ رپورٹس میں نہ کرکے اپنے ماضی کی روایات کوہی زندہ رکھتا تھا سو اِس میں وہ بہر حال کامیاب رہے مگر ‘تھر کے وہ عوام جو گزشتہ کئی برسوں سے چھور چھاونی اور ڈیپلو پلاٹون ہیڈ کوارٹر سے وابستہ اِن جوانوں اور افسروں کو اپنے درمیان آتے جاتے دیکھتے رہیں گے جنہوں نے ہمیشہ اُن کے ساتھ ہی رہنا ہے اُن کی معصوم آنکھوں میں پاک افواج کے جوانوں کے لئے پائی جانے والی محبتوں کی چمک کو مٹاپائیں گے کبھی بھی نہیں ‘ کراچی اور حیدرآباد کے سیاسی حکمران اور اُن کے پسندیدہ میڈیا والے صحرائے تھر کی سلگتی تپش کو زیادہ دن تک برداشت نہیں کرسکتے بہت سے چلے گئے ہوں گے کل بھی وہاں فوجی جوان تھے آئندہ بھی اپنے محدود وسائل کے ساتھ اُن کے درمیان اُن کی مددواعانت کے لئے مسلح افواج کے جوان وافسر موجود رہیں گے یاد رہے یہ جوان پاکستانی عوام کی خدمتوں کے جذبوں سے سرشار ہیں۔