Posted date: July 31, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا اظمی
نظریہ کے بغیر کسی تحریر میں نہ جان پیدا ہوسکتی ہے نہ کسی نظرئیے کے بغیر کسی بھی شعبہ ِٗ زندگی کی قائدانہ شخصیت کے بنیادی خدوخال نمایاں ہوپاتے ہیں نظریہ ہی شخصیت کو اپنے شعبہ ِٗ زندگی کا قائد اور رہنما بنا کر اُسے آنے والی نسلوں کے تقلیدی مثال بناتا ہے پاکستان کی اب تک کی صحافتی تاریخ کا اگر بغور غیر متعصبانہ جائزہ لیا جائے تو کسی کویہ کہنے میں یقیناًکوئی عار محسوس نہیں ہانا چاہیئے کہ روزنامہ نوائے وقت کے بانیان میں مرحوم حمید نظامی کے بعد مجید نظامی صاحب بھی چلے بسے ‘ یہ عظیم اور سایہ دار نابغہ شخصیت یقیناًآج ہم میں موجود نہیں رہی ‘ سب کو اپنے پروردگار کی بارگاہ میں ہر صورت ایک نہ ایک روز پلٹ کر جانا ہے سو وہ بھی چلے گئے ‘ مجید نظامی صاحب کی جدائی کا غم پاکستان کی نظریاتی صحافت کا ایک ایسا قیمتی نقصان ہے جس کا خلاء شائد ہی کبھی پُر ہوسکے، روزنامہ نوائے وقت کے ملک اور بیرونِ ملک قارئین ‘ اُن کے احباب ‘ اُن کے قریبی اعزاء اور اِ ن کے صحافتی ادارے سے متعلق ہر رکن ‘ چاہے اُس کاتعلق ادارے کے کسی شعبہ سے ہو ‘ وہ صحافی ہوں ‘ انتظامیہ کے کا رکن یا پریس کے رکن، سبھی اُن کی کمی محسوس کریں گے مجید نظامی صاحب مرحوم نے بحیثیت صحافی ‘ بحیثیتِ ایڈیٹر انچیف اپنے پبلیکشنز گروپ کی ترقی واستحکام کے لئے بے مثال خدمات انجام دیں ہم سمجھتے ہیں کہ مرحوم مجید نظامی صاحب کی ایک اُس خاص قومی خدمت کا تذکرہ ضرور کیا جائے جو مرحوم گزشتہ 42برسو ں سے اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک والہانہ انداز میں نبھاتے رہے عین ممکن ہے اُنہوں نے اپنی اِس قومی تاریخی اہمیت کی حامل اِس خدمت کو جاری وساری رکھنے کے لئے کوئی ایک ادارہ قائم کردیا ہو! ہمیں بڑی حیرت اور بڑا تعجب ہوتا ہے اُن نام نہاد سماجی تنظیموں کے کرتا دھرتا ؤں کے دوغلے کردار پر ‘ جو انسانی حقوق کے نام پر برسہا برس سے غیر ملکی فنڈر لیتے ہیں، مگر معلوم نہیں ہوتا یہ کروڑوں ڈالر ز خرچ کہاں ہو تے ہیں، مجید نظامی صاحب مرحوم یوں تو کئی نوع کی سماجی تنظیموں کے سربراہ رہے ہوں گے، مگر سابقہ مشرقی پاکستان کے اُن خالص کھرے پاکستانیوں کے لئے وہ بہت دکھی رہتے تھے، جو آج بھی ڈھاکہ کے کیمپوں میں بڑی کسمپرسی کی حالت میں اپنی تلخ زندگی کے سخت ایّام گزار رہے ہیں کون نہیں جانتا کہ اُنہوں نے ’محصور ینِ بنگلہ دیش ‘ کی امداد کے لئے ایک فنڈ قائم کیا جس میں دنیا بھر کے محبِ وطن پاکستانی ‘ ملکی محبِ وطن شخصیات بھی نظامی صاحب کی شخصیت پر بھرپور اعتماد کرتے ہوئے دل کھول کر مالی عطیات جمع کرایا کرتے تھے نظامی صاحب مرحوم کی دیانت داری اور مانتداری کا ایک واضح حسنِ انتظام یہ تھا کہ برسوں سے ہر دن کے جمع ہونے والے مالی عطیات کی تفصیلات ہر روز کے نوائے وقت میں نمایاں مقا م پر ’باکس ‘میں شائع ہوتے ‘ جب بھی کبھی محصورینِ بنگلہ دیش کا کوئی نمائندہ اُن سے ملنے آتا تو وہ بڑی خندہ پیشانی سے اُس سے ملتے ’محصورینِ بنگلہ دیش ‘ وہ پاکستانی ہیں جنہوں نے آج تک بنگلہ دیش کوتسلیم نہیں کیا اور قابل افسوس مقام یہ ہے کہ آج تک کی کسی بھی پاکستانی حکومت نے اُن کی باعزت واپسی کے کوئی قدم نہیں اٹھایا مجید نظامی صاحب مرحوم نے اپنی پوری صحافتی زندگی میں کبھی ذاتی اغراض ومقاصد کو قومی اہداف اور نظریات پر ترجیح نہیں دی وہ ہر دور کے حکمرانوں کے لئے چیلنج بنے ‘ چاہے کسی فوجی طالع آزما کا دور ہو یا کسی جمہوری سیا سی حکمران کا جو آمرانہ ذہن رکھنے والے ہو ‘ مجید نظامی صاحب نے اپنے میڈیا کے نظریاتی ادارے کو اپنی صحافتی عظمتوں کے ڈسپلن پر قائم رکھنے میں اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ صرف کردیا جب بھی اُنہیں کوئی فیصلہ کرنا پڑا تو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اپنے ’خونی رشتوں ‘ کی بھی اُنہوں نے پرواہ نہیں کی ‘ خدمت کے یہ ہی سنہری ا صول اُنہوں نے نوائے وقت گروپ کے زیر اہتمام شائع ہونے والے جرائد اور دی نیشن کے علاوہ وقت نیوز چینل میں فرائض اداکرنے والے بڑے عہدوں پر فائز لوگوں کے لئے اور اپنے ہر کارکن کے لئے متعین کیئے، ’لگن اور جستجو کے بامقصد احساسات کے بغیر انسانی معاشرے میں کوئی فرد ایک قدم آگے نہیں بڑھا سکتا جب تک اُس کا کوئی نظریہ نہ ہو نظرئیے کے ساتھ لگن بھی ہو اور جستجو بھی تبھی شخصیت سازی کاعمل مکمل ہوتا ہے مرحوم مجید نظامی صاحب کی لگن اور جستجو کے تما م تر سوتے ایک مستحکم و مضبوط اور ترقی یافتہ پاکستان کے وجود سے ہی نمو پاتے رہے اُن کی زندگی کا ایک ایک دیوانہ وار لمحہ‘ اگر سوچتا تھا تو صرف پاکستان کی سلامتی اور بقاء کی سوچ میں منہمک رہا پاکستان میں جب ’نظریاتی ‘ صحافت کی کہیں کوئی تاریخ لکھی جائے گی تو اُس تاریخ کے صفحات میں مجید نظامی مرحوم کا نام سنہری ابواب میں لکھا جائے گا ’ایلیٹ ‘ پاکستانی کلاس ‘ نام نہاد سول سوسائٹی کلاس سے مرعوب پاکستانی اشرافیہ ‘ کی پیشانیوں پر نجانے کیوں نظامی صاحب کا نام سنتے ہیں سلوٹیں ابھر آتی ہیں وہ فوراً یہ سمجھ جاتے ہیں ’نظریاتی صحافت ‘ پر یقین رکھنے والوں کا تعلق یقیناًروزنامہ نوائے وقت سے ہوسکتا ہے یہ سب لوگ مجید نظامی صاحب کے ہی پڑھائے ہوئے لوگ ہیں، جناب والہ ! ہم بھی چیخ چیخ کر یہ کہتے ہیں کہ ہم نظریاتی صحافت پر یقین رکھتے ہیں، کوئی مانے نہ مانے عقل وفہم کی بات یہ ہے کہ نظریات کاتعلق ہمیشہ سے ضمیر کی سچائیوں سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا اگر کسی کے پاس کوئی نظریہ نہیں ہے صحافت تو رہی دو ر کی بات ‘ ایسوں کا تعلق کسی آسمانی ادیان سے بھی نہیں ہوسکتا ،آسمانی کتب الہیٰ نظریات پر نازل ہو ئیں بس آگے اب کیا بات کریں اللہ تبارک و تعالیٰ مجیدنظامی صاحب کے درجات کو بلند فرمائے ‘لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے خاص کر اُن کی لائق صاحبزادی محترمہ رمیزہ نظامی صاحبہ کو صبر واستقامت سے اِس عظیم صدمہ کو جھیلنے کی توفیق عطا فرمائے ،جن پر ایک عظیم قومی اشاعتی ادارے کی اہم حساس ذمہ داری آن پڑی ہے نوائے وقت گروپ آف پبلیکشنز کی نئی سربراہ صاحبہ نے بیرونِ ملک سے اعلیٰ تعلیمات حاصل کی اب عملاً گزشتہ چند برسوں اپنے عظیم والد مجید نظامی مرحوم کی سرپرستی میں اُنہوں نے یقیناًاُن کے والہانہ وطن پرستانہ تصورات کے عکس کے پرتو سے اُن حقیقتوں تک ضرور رسائی پا لی ہوگی جیسے مرحوم نظامی صاحب کے ہاتھ ہمیشہ پاکستان کے محب وطن عوام کی نبضوں پر رہے ‘ظالم کو اُنہوں نے ہمیشہ ظالم ہی کہا لکھا، کبھی کسی سے خوف نہیں کھایا ‘ دنیا کی خواہشات کے کبھی طالب نہیں رہے دنیاوی مال ومتاع اُن کے لئے کبھی دل پسند نہیں رہا چاہے اِس کے بدلے میں اُنہیں کتنا ہی بڑا مالی نقصان کیوں نہ اُٹھانا پڑا ہو، اگر اُنہیں اپنی زندگی میں کوئی چیز کبھی بھائی تو وہ صرف یہ کہ پاکستان کی جغرافیائی سلامتی طرف کوئی میلی آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جراّت نہ کرسکے مقبوضہ جموں وکشمیر کی آزادی اُن کا پہلا مطمعِ نظر رہا اُنہوں نے اپنے قلم کی حرمت کو ہر حالت میں قائم رکھا وہ جانتے تھے پروردگار عالم نے قرآنِ پاک کی سورہ قلم کی ابتداء میں ’قلم ‘ کی قسم کھائی ہے تو بس‘ نظامی صاحب یقیناًہم جیسے قلمکاروں کے لئے باعثِ تقلید تھے اور رہیں گے مرحوم نظامی صاحب نے خالص اسلامی نظریاتی صحافت کو جلا بخشنے کے لئے اپنی ہستی کو مٹا دیا یہ شعر واقعی اُن کی ذات پر ہی صادق آتا ہے