Posted date: January 22, 2015In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
بھارت میں ہر برس 26 ؍ جنوری کو ’یومِ جمہوریہ ‘ منا نے تقریب منعقد کی جاتی ہے دنیا کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ بھارت جو کثیر النسلی ‘ کئی زبانیں بولنے اور کئی مذاہب کے ماننے والوں کا ملک ہے، ’ہندو قوم ‘ کی اکثریت اِس دیش میں آباد ہے، ہندوؤں میں دوتہائی سے زیادہ تعداد ’دلتوں‘ کی ہے جنہیں بھارت بھر میں ’اچھوت ‘ تصور کیا جاتا ہے ہندوبراہمنوں نے گزشتہ67 برسوں سے ’سیکولرازم ‘ کی آڑمیں ’جمہوری چالبازیوں ‘ کا ڈرامہ رچا نے کا سلسلہ جاری رکھا ہواتھا اور اب تو براہمنوں کے نام نہاد ’صبر‘ کاپیمانہ چھلک اُٹھا ہے اُنہوں نے ’سیکولرازم ‘ کے سامنے ہاتھ باندھ لیئے اِس کی سیاسی چتا کو آگ دکھا دی ہے، بھارت کا اصل جنونی متعصب ہندو چہرہ آر ایس ایس کی شکل میں اب کھل کر سامنے آگیا ہے ’بھارت دیش ‘ صرف اور صرف ہندو ؤں کی سرزمین مانی جانے لگی ہے کہیں ’واپسی کے رستے ‘ کے نام پر روز زبردستی ‘ طاقت و قوت کے زور پر بھارتی عیسائیوں ‘ بھارتی مسلمانوں ‘ بھارتی سکھوں اور بدھسٹ اقلیتوں کو ’ہندو ‘ بنایا جارہا ہے کھلے عام کہا جارہا ہے کہ اب سب سے بڑی اور عظیم جمہوریت کا سفر ہندومذہبی جنونیت کے نام پر آگے بڑھے گا، بھارت میں ہندوجنونیت کی جمہوریت کو سمجھنے کے لئے ہمیں جیمز میڈیسن کا تحریر کردہ ’فیڈرلسٹ پیپرز ‘ کا بغور مطالعہ ضرور کرنا چاہیئے جس سے یہ معلوم ہوگا کہ ’جمہوریت میں ہرکسی کی خواہش ومرضی نہیں چلتی ہر کسی بھی کمزور اقلیتی کو اپنی سماجی وثقافتی خواہشات کا گلہ گھونٹا بھی پڑ جائے تو اُسے اکثریت کے سامنے ’سرینڈر‘ کرنا پڑے گا عالمی سطح کے ممتاز صاحبِ بصیرت دانشور یہ مانتے ہیں کہ ’جمہوریت کے لبادے میں اکثروبیشتر سیاسی حکمران ‘ آمروں سے دوقدم آگے بڑھکر’ مطلق العنانیت‘ کاروپ دھارلیتے ہیں، جیمز میڈیسن نے اقلیتوں پر اکثریت کے اِسی قسم کو سیاسی وسماجی ظلم سے تعبیر کیا ہے وہ کہتا ہے ایسی جمہوریت جو مسلسل ایک ہی ’رُو‘ میں چلتے رہنے کے بعد ’اکثریت کا ظلم ‘ بن جاتی ہے دنیا اِسی سیاسی دھوکے میں فریب کا شکار بن جاتی ہے کہ شائد یہی قابلِ رشک جمہوریت ہے شا ئد جمہوریت ایسی ہی ہوتی ہوگی؟ بھارت کے ممتاز دانشو اور ماہرِ عمرانیات فرید زکریا نے اپنی کتاب ’دی فیوچر آف فریڈم ‘ میں نام نہاد عظیم سیکیولر بھارتی جمہوریت کا پوسٹ مارٹم کیا ہے ‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’بھارت نے اپنی جمہوریت کی الف بے کا مکمل کورس برطانیہ اور کانگریس پارٹی سے سیکھا ‘ دیش کی جمہوریت کے بیشتر ادارے جیسے اور جن حالتوں میں انگریزوں نے چھوڑے اُن ہی اطوار پر آج تک بھارت میں جمہوریت چل رہی ہے، عدالتیں ’ مقننہ اور نیم آزاد پریس وہاں موجود ہے آج تک اِن اداروں میں عام بھارتیوں یعنی ’بھارتی اقلیتوں ‘ کو زیادہ بنیادی اختیارات استعمال کرنے کی نہ کل اجاز ت تھی نہ آج ‘1947 میں تقسیم کے بعد دیش کے یہ ادارے اور یہ سیاسی وثقافتی روایات بھارتی حکمرانوں نے وراثت میں لیئے اور اِن پر اپنی جمہوریت کی عمارت کھڑی کردی یاد رہے ’انڈین نیشنل کانگریس‘ جمہوریت کی رہنما تھی ‘جو بذاتِ خود برطانوی طرزِ حکمرانی سے ہوبہو مشابہہ تھی نام نہاد آزادخیال قوم پر ست نظرئیے سے لے کر نچلی کمیٹیوں کی ساخت تک بالکل ویسی کی ویسی ہی ہے وہ لکھتے ہیں کہ بھارتی عدالتوں نے برطانوی روایات کی پیروی کی ہے ‘ اکثر نے اُسی قانون کا استعمال کیا نئی دہلی کی پارلیمنٹ‘ ویسٹ منسٹر کے قوانین اور رسموں کے نقشِ قدم پر چلتی دکھائی نہیں دیتی؟ ‘ بھارتی نژاد امریکی مصنف فرید زکریا نے اپنی تصنیف میں جمہوریت کے نام پر بھارتی حکمرانوں کے عوامی استحصال کے مظاہر کودنیا کے سامنے پیش کرکے بڑا اہم کام کیا ہے صاف نظرآرہا ہے کہ بھارتی جمہوریہ نام کی سیکولر رہ گئی ہے جبکہ ہندو تعصب کے طوفانی گرد و غبار میں گھری یہ جمہوریہ انسانی حقوق کے لئے ظلم وستم کی بڑی بہیمانہ روا یات میں ڈھلتی ہوئی نظر آرہی ہے شائد ہی مستقبل کا بھارت اب جنونی ہندو جمہوریت سے چھٹکارہ پاسکے دیش میں چہار اطراف سے علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں عالمی مفکر ‘ جن کی عمیق نگاہیں قدیم وجدید جمہوریتوں کے ابتدائی وانتہائی نشو ونما پر ہمہ وقت مرکوز ہیں اُنہیں یقیناًیہ علم بھی ہوگا کہ بھارتی جمہوریہ کا ابتدائی مسودہ لکھنے والا پہلا قانون دان کو ن تھا ؟کون تھا جس نے بھارتی جمہوریہ کو سیکولر بنانے کا خیال پیش کیا ’ڈاکٹر امبیڈکر‘ اِس عظیم شخصیت کو آج بھارت میں کوئی مقام حاصل ہے ؟ بھارت کی نئی نسل کیا اِن کی آئینی خدمات کی معترف ہے بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے ایک بار کہا تھا ’ میں بھارت کا آخری انگریزحکمران ہو ں ‘ بے خبر دنیا جسے عوامی لیڈریا عظیم جمہوریت پسند قائد ‘سمجھتے ہیں ’ڈاکٹرامبیڈ کر ‘اُس دور کے حقیقی عظیم قانون دان تھے مگر ’دِلت‘ قوم سے تعلق رکھنے کی بناء پر کانگریسی براہمنوں نے بھارت کے کڑوڑوں کمزور دِلتوں کے حق پر کھلے عام ڈاکہ مارا دِلتوں کے قائد ڈاکٹرامبیڈ کر کو دھوکہ دیا سیکولر ازم کے نام پر ‘ کسی کے پاس اِس حقیقت کا ٹھوس جواب ہے ؟‘ زیادہ تفصیل میں جانے کا وقت نہیں، ہمارے پیشِ نظر بھارت کی جمہوری قدروں کی بات اِس لئے اہمیت کی حامل ہے‘ یہ ہمار اپڑوسی ہے ایٹمی اور کیمیکل ہتھیاروں کا ایک وسیع ذخیرہ اِس کے پاس ہے بھارت کے جنوبی اور شمالی حصوں میں علیحدگی کی مسلح تحریکیں چل رہی ہیں ‘ ہماری مشرقی سرحدوں پر بھارتی جنگی ہسٹریا نے ہمیں اب زیادہ چوکنا کردیا ہے 26 ؍ جنوری کو اپنا’ یومِ جمہوریہ‘ منانے والے بھارت کو یہ یاد دلا دنا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ نئی دہلی کے حکمران اِن پریشان کن علاقائی مسائل کی تشویش کو سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کریں جسے دنیا مسئلہ ِٗ کشمیر کے حوالے سے جانتی ہے مقبوضہ جموں وکشمیر کو بزورِ قوت یا ہندو توا کی جنونی جمہوریت کے نام پر نئی دہلی کے زیر تسلط رکھنے کا وقت اب اُن کی مٹھی میں سے ریت کی مانند نکلا جارہا ہے، کشمیری عوام آج بھی67 برسوں کی طرح بھارت کے یومِ جمہوریہ کو ’یوم سیاہ ‘ کے طور پر منا کر اَمن پسند دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہیں بھارت فوجی برتری کے زعم میں لاکھوں کی تعداد اپنی فوجی دستے کشمیر میں داخل کر کے نہ و ہ کشمیریوں کے دِل ودماغ پر قابض ہوسکا وہ نہ سرزمینِ کشمیر پر اپنا ا خلاقی جواز دنیا کے سامنے پیش کرپا یا کنٹرول لائن کے دونوں جانب کے اہلِ کشمیر بھارت کے’ یومِ جمہوریہ‘ کو اخلاقی طور پر تسلیم کرنے سے دوٹوک انداز میں واضح طور پر انکاری ہیں، کشمیر میں غاصب بھارتی فوجیوں کی موجودگی پرکشمیری دل شکستہ وپریشان عالمی منصفوں سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب کیوں نہیں ‘آخر کب دنیا کا ضمیر بیدار ہوگا؟ مقبوضہ جموں وکشمیر کو بنیادی انسانی حقوق کب دئیے جائیں گے؟’ بھارتی یوم جمہوریہ‘ کو بطور’یوم سیاہ ‘ منانے والے غیور اور سرفروش کشمیری حریّت پسند اپنی مادرِ وطن کے لئے اپنی زندگی کے آخری سانس تک لازوال قربانیاں پیش کرنے کا عزمِ صمیم رکھتے ہیں اُن کی قیمتی قربانیوں کی یہ بے مثال لہورنگ تاریخ آخری بھارتی فوجی کے ناپاک قدم کشمیر سے نکلنے تک یونہی رقم ہوتی رہے گی۔