الیکشن 2013 کا پْر امن انعقاد اور دہشت گردوں کی ناکامی
Posted date: May 31, 2013In: Urdu Section|comment : 0
سال 2013 کا آغاز ملک میں جمہوری نظام کی بالادستی اور پھر ہونے والے الیکشن کی خبروں سے ہوا۔ ان خبروں کے تناظر میں ہر فرد یہ سوال کرتا نظر آیا کہ اس بار پاکستان میں حکومت قائم کرنے کا شرف کس سیاسی پارٹی کو حاصل ہو گا جبکہ نوجوانوں نے الیکشن کو پاکستان میں ایک مثبت تبدیلی تصور کرتے ہوئے اپنا حقِ رائے دہی بھر پور طریقے سے استعمال کیا۔ تا ہم اس کے برعکس انتہا پسند عناصر نیانتشار پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور الیکشن کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر جمہوریت کو حرام قرار دے دیا تا کہ عوام کو الیکشن میں حصہ لینے سے متنفر کیا جا سکے۔ تحریکِ طالبان نے کراچی، پشاور ، مردان، مالاکنڈ، کوہاٹ، ہنگو اور وزیرستان میں دھمکی آمیز خطوط جاری کیے جس میں پاکستانی عوام کو الیکشن میں حصہ لینے سے باز رہنے کا کہا گیاتھا۔تجزیہ نگاروں کے مطابق ان دھمکیوں کا مقصد محض یہ تھا کہ پاکستانی عوام کی حوصلہ شکنی کی جائے تا کہ وہ حملوں کے ڈر سے پولنگ اسٹیشن کا رخ نہ کر سکیں۔
دہشت گردوں نے تین بڑی سیاسی جماعتوں کوباقاعدہ دھمکی آمیز پیغامات بھی جاری کیے جن میں واضح طور پر ان جماعتوں کو حملوں کا ہدف بنانے کی دھمکی دی گئی تھی۔اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے تحریکِ طالبان نے ملک بھر میں چلائی جانے والی الیکشن مہم پر دہشت گردانہ حملے شروع کر رکھے ہیں۔ صوبہ سندھ، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں تحریکِ طالبان کے بے دریغ حملوں میں 70 سے زائد لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں جہاں کیے گئے حملوں اور خودکش دھماکوں میں 51 افراد لقمہ اجل بنے۔ ان حملوں میں پشاور، کوہاٹ اور صوابی کے الیکشن دفاتر اورسیاسی ریلیوں کو نشانہ بنایاگیا۔ کراچی میں سیاسی کارکنان پر حملوں کے نتیجے میں 17 افراد ہلاک جبکہ 61 سے زائد زخمی ہوئے۔ صوبہ بلوچستان کی صورتحال بھی سندھ اور خیبرپختونخواہ سے مختلف نہیں رہی جہاں کوئٹہ، سبی اور مچھ کے علاقے میں متعدد حملوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ الیکشن مہم پر حملوں کی ذمہ دار ی قبول کرتے ہوئے تحریک طالبان نے گزشتہ دنوں یہ اعلان کیا کہ کسی بھی سیاسی جماعت پر حملہ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ طالبان شوریٰ کرتی ہے۔ تحریکِ طالبان کے ترجمان نے کہا کہ اس وقت سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنانے کا فیصلہ صرف سابق حکمراں جماعتوں تک محدود رہے گا۔ تاہم دہشت گردوں نے بہت سی دیگر سیاسی جماعتوں پر بھی حملے کیے۔سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس بیان کا مقصد پاکستان کی مقبول سیاسی جماعتوں میں ایک دوسرے کے لیے شک و شبہات پیدا کرنا تھے تا کہ ملک میں الیکشن مہم کو مزید مشکل بنا یا جا سکے۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا یہ بیان محض سیاسی جماعتوں کے درمیان اشتعال انگیزی کو فروغ دینے کے لیے دیا گیا ہے۔
دہشت گردوں کی مذموم کا روائیوں کے پیشِ نظر پاکستانی علمائے اسلام نے ایک فتویٰ جاری کیا جس کے تحت تمام پاکستانیوں کے لیے اپنے ووٹ کا استعمال ایک قومی اور دینی فریضہ قرار دیا گیا۔ مختلف مکاتبِ فکر کے 300 علماء4 نے یہ فتویٰ دہشت گردوں کے جھوٹے پراپیگنڈے کے جواب میں جاری کیا ہے۔ اس فتویٰ کیذریعے یہ پیغام بھی دیا گیا کہ اسلام میں خواتین کو بھی ووٹ کے ذریعے اظہار رائے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ اس فتویٰ کے جاری ہونے سے ایک فائدہ یہ ہو ا کہ لوگ بغیر کسی شک و شبہات کے اپنے حقِ رائے دہی کے استعمال کو ایک دینی اور قومی فریضہ سمجھتے ہوئے گھروں سے نکلے اور ووٹ ڈالے۔ اگر ہم جمہوریت میں کارفرما عوامل کا ایک تاریخی جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ مغربی ممالک نے جمہوری افکارِ اسلام کی تعلیمات سے ہی مْستعار لی ہے۔ خلفائے راشدین نے اپنی حکومت کی عوامی تائید کے اظہار کے لیے بیعت کا طریقہ اپنایا۔ آج کے دور میں جب ملکوں کی آبادیاں کروڑوں افراد پر مبنی ہیں تو شخصی بیعت لینا ممکن نہیں ہے لہذا یہ ضرورت اب ووٹ کے ذریعے پوری کی جاتی ہے۔ آزادیِ اظہار حضرت عمر فاروقؓ کا پیغام ہے۔ حضرت عمرؓ کی محفل میں ایک عام مسلمان بھی ان سے ان کے کسی بھی عمل کی وضاحت طلب کر سکتا تھا۔ دہشت گرد جو سوال کرنے والے کو گولی کے جواب سے نوازتے ہیں انہیں کیا خبر کے اسلام اور اس کی تعلیمات کیا ہیں۔ جمہوریت میں کوئی بھی قابلِ اعتراض اور اسلامی اصول سے متضاد پہلو نظر نہیں آتا لہذا دہشت گردوں کا جمہوریت مخالف رویہ محض ذاتی مفادات کیحصول کی کوشش ہے۔
اسلامی ممالک کے موجودہ سیاسی منظرنامے کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جمہوریت کی وجہ سے اسلامی قوت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ترکی میں آج ایک اسلامی جمہوری پارٹی کی حکومت قائم ہے اوراس ملک میں ایک بڑی تبدیلی کا باعث جمہوریت ہی ہے۔ مصر جہاں صدر حسنی مبارک کی آمریت قائم تھی آج جمہوریت کی وجہ سے ہی وہاں اسلامی جماعتوں اور علماء4 کو حکمرانی کا موقع ملا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک ایران میں آنے والا اسلامی انقلاب بھی جمہوریت ہی کا ثمر تھا۔
دہشت گردوں کو باخوبی علم ہے کہ انہیں عوامی حمایت حاصل نہیں۔ انہیں یقین ہے کہ عوامی طرزِ حکومت ان کے مذموم مقاصد کی راہ کی سب سے بڑی دیوار ہے اس لیے وہ جمہوریت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں پیو ریسرچ سنٹر کے سروے سے یہ بات ثابت ہوئی کہ پاکستان کی اکثریت اب دہشت گردوں کو پاکستان کی بقاء4 کے لیے ایک بڑا خطرہ تصورکرتی ہے۔ اس سروے کی وضاحت الیکشن 2013 میں ووٹرز کی تعداد سے بھی کی جا سکتی ہے جہاں لوگ تحریکِ طالبان کی دھمکیوں کے باوجود بے خوف و خطر اپنے گھروں سے نکلے۔ اس صورتحال کے پیشِ نظر قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص پاک فوج کا کردار قابلِ ستائش ہے۔ جنہوں نے ایک پْر امن الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنایا۔ قبائلی علاقہ جات میں 15,000 سے زائد سکیورٹی اہلکاروں نے مختلف پولنگ اسٹیشن پر اپنے فرائض سر انجام دیئے۔ صوبہ بلوچستان میں بھی پاک فوج کی ایک بڑی تعداد نے پولنگ اسٹیشن پر لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنایا۔ جبکہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں 96,000 سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کی گئی۔ ان تمام اقدامات کے نتیجے میں پاکستانی عوام نیان الیکشن میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے دہشت گردوں کے مذموم مقاصد کو بْری طرح ناکام کر دیا جس کے لیے تمام قوم مبارکباد کی مستحق ہے۔