Posted date: August 29, 2013In: Urdu Section|comment : 0
ایم خان چشتی
بارہ کہو میں دہشت گردی کی کوشش ناکام بنانے کے بعد متعلقہ اداروں نے واقعے کی تحقیقات کی جس سے دہشت گردی کا ایک نیا پہلو سامنے آیا۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بارہ کہو کی علی مسجد میں خودکش حملے کا منصوبہ چند پڑھے لکھے نوجوانوں نے بنایا جو کچھ عرصے پہلے ایک مقامی کالج سے نکالے جا چکے تھے۔ ان لڑکوں نے جدید تکنیکی آلات کے ذریعے خودکش حملے کی منصوبہ بندی کی۔ ان میں سے اکثر لڑکوں کا تعلق جنوبی کرم ایجنسی کے علاقے سدہ ٹاؤن سے تھا جو تقریباً پانچ چھ سال پہلے اپنے کنبوں کے ہمراہ بارہ کہو آ کر رہائش پذیر ہو گئے تھے۔ بظاہر ان لڑکوں کی کسی انتہا پسند یا دہشت گرد تنظیم سے تعلق نظر نہیں آتا تھا کیونکہ یہ لڑکے اپنے حُلیوں سے بھی مذہبی تاثر نہیں دیتے تھے۔ تاہم کالج سے نکالے جانے کے بعد ان لڑکوں نے وزیرستان میں تحریکِ طالبان میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ خواہش پوری نہ ہونے پر ان لڑکوں نے جنوبی کرم ایجنسی میں موجود تحریکِ طالبان سے رابطہ شروع کیا جو پارہ چنار میں اہلِ تشیع کے خلاف حملوں میں ملوث ہیں۔ طالبان عناصر نے ان لڑکوں کو بارہ کہو میں ہی رہ کر اہلِ تشیع کی امام بارگاہ میں موجود نمازیوں کو ہدف بنانے کا شرمناک کام سونپا۔ اس سارے واقع میں سب سے زیادہ تشویش ناک پہلو یہ تھا کہ اس خودکش حملے کے ناپاک منصوبے میں ایک 18 سالہ لڑکی اور ایک 14 سالہ لڑکا بھی ملوث تھے۔ تفصیلات کے مطابق کُل 11 نوجوان جولائی سے اس حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اور جدید آلات سے علی مسجد کے قریبی علاقوں کی ویڈیو ریکارڈنگ کرتے رہے۔ حملے کے لیے عید کا دن اور نمازِ جمعہ کا وقت چنا گیا تا کہ زیادہ سے زیادہ ہلاکتیں ممکن بنائی جا سکیں۔ تا ہم سکیورٹی گارڈ کی ہوشیاری سے اس حملے کو ناکام بنا دیا گیا۔
تعلیم یافتہ نوجوان افراد کا اس مذموم کاروائی میں ملوث ہونا پاکستان کے لیے ایک لمحہ ء فکریہ ہے۔ نجی کالج سے نکالے گئے چند نوجوانوں کا یہ خطرناک قدم اُٹھانا اور دوسرے فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنا دشمن سمجھ کر قتل کی منصوبہ بندی کرنا بے حد تشویش کا باعث ہے۔ گزشتہ خودکش حملوں اور دہشت گردی کی کاروائیوں سے ہمیں پتہ چلتا ہے دہشت گرد عموماً ان پڑھ اور کم فہم ہوتے ہیں لیکن اس واقعے نے دہشت گردی کے ایک اور پہلو کو اُجاگر کیا ہے جس میں پڑھے لکھے اور باشعور نوجوانوں کی اس قسم کی کاروائیوں میں ملوث ہونے کےثبوت ملے ہیں۔ یقیناً ان نوجوانوں کی کاروائی کے پیچھے تحریکِ طالبان کا ہاتھ ہے تاہم تعلیم یافتہ لڑکوں کا دہشت گردوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن جانا ایک قابلِ تشویش امر ہے۔ اس سے پہلے اس قسم کے واقعات کا تصور صرف مغربی ممالک میں کیا جا سکتا تھا۔ جہاں کئی ایسے واقعات وقوع پذیر ہو چکے ہیں جس میں نوجوان مسلمان القاعدہ کے ایماء پر دنیا بھر میں دہشت گردی کا بازار گرم کرتے رہے ہیں۔
خودکش حملے کی ناکامی سے صاف واضح ہوتا ہے کہ یہ نوجوان مکمل طور پر تربیت یافتہ نہ تھے اور نہ ہی ان کا منصوبہ پائیدار تھا۔ یہ لڑکے محض دہشت گرد تنظیموں سے کیے جانے والے مذہبی استحصال کا شکار ہو کر اہلِ تشیع سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے جان کے دشمن بن بیٹھے۔حالیہ عرصے میں تحریکِ طالبان میڈیا اور بالخصوص انٹرنیٹ کے ذریعے بہت سے مسلمان پاکستانی نوجوانوں کے ذہنوں میں ریاست اور دیگر فرقوں کے خلاف نفرت کا بیج بو رہی ہیں۔ ان عناصر کا اکثر انتخاب سُنی مسلمان ہوتے ہیں جنہیں باآسانی شیعہ مسلمانوں کے خلاف اُکسایا جا سکتا ہے ۔ ان عناصر کا ہدف وہ نوجوان بھی ہوتے ہیں جو کالج اور سکولوں سے نکالے جا چکے ہوں اور اپنے گھریلو حالات سے مطمئن نہ ہوں۔ ایسے افراد کے کم فہم ذہنوں کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کرنا دہشت گرووں کے لیے بہت آسان ہو جاتا ہے۔
اس صورتحال میں والدین کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے جو اپنے بچوں کو غلط صحبت سے بچا سکتے ہیں اور نوجوان اولاد کے ذہن میں پیدا ہونے والی نفرت کے جذبات کو زیر کر سکتے ہیں۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں موجود اساتذہ اور ادارے کی انتظامیہ بھی اس صورتحال میں بے حد مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر یہ لوگ اپنے اداروں میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کی کاروائیوں پر کڑی نظر رکھیں اور طالب علموں کے ذہنوں میں پنپتے ہوئے فرقہ پرستی ، لسانیت اور مذہبی انتشار جیسے منفی جذبات کو کم کرنے کی کوشش کریں تو بارہ کہو جیسے واقعات سے بچا جا سکتا ہے۔ نیز ارباب اختیار اور متعلقہ ادارے جو اس وقت ایک پائیدار انسدادِ دہشت گردی کی پالیسی مرتب کر رہے ہیں اُنہیں چاہیے کہ وہ بھی اس پہلو پر غور کریں اور اس کے تدارک کے لیے ایک موثر پالیسی تشکیل دیں۔