دہشت گردوں کی ناقص نظریاتی اورغیر منطقی سوچ

Terrorist ایس اکبر

سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگینڈا دنیا کے کونے کونے تک باآسانی پہنچ جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد اپنے نظریات کی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا کا باخوبی استعمال کر رہے ہیں اور دہشت گرد اپنی ناقص نظریاتی سوچ کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں تا کہ ایک باقاعدہ سوچی سمجھی سکیم کے تحت معصوم اور کم سن ذہنوں کو زنگ آلود کر کے اپنی تنظیموں کے لیے افرادی قوت بڑھائی جا سکے ۔   انتہا پسند دہشت گرد ہمیشہ یہ پرچار کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ اسلامی تعلیمات کے سچے پیروکار ہیں جبکہ اسکے برعکس اگر ان کی کاروائیوں کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہو تی ہے کہ ان کے قول و فعل میں واضح تضاد ہے۔ مسلح فسادانگیزی، انسانی قتل و غارت، خودکش حملے، مساجد و مزارات پر حملے، تعلیمی اداروں کی تباہی، دفاعی تربیت کے مراکز پر حملے، نعشوں کی بے حرمتی اور عورتوں کا استحصال وہ تمام کاروائیاں ہیں جو ان دہشت گردوں کی حقیقت عیاں کرنے کی لیے کافی ہیں۔ یہ دہشت گرد ان تمام کاروائیوں پر عمل پیرا ہیں جس سے نہ صرف مسلمانوں کی بدنامی ہو رہی ہے بلکہ اسلام دہشت گرد ی کو فروغ دینے والا مذہب سمجھا جاتا ہے۔اپنی تمام کاروائیوں کو یہ ظالم جہاد کا نام دے رہے ہیں اور جہاد کا ہی لفظ استعمال کر کے مسلمانوں کو دوسرے مسالک اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف اکسا رہے ہیں۔دہشت گردوں کے مطابق پاکستان کی حکومت اور بالخصوص عساکر پاکستان شریعت کے خلاف قوانین پر عمل پیرا ہیں اور اسلام دشمن عناصر کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں ۔انہی وجوہات کی بنا پر پاکستان میں ہونے والی تمام کاروائیوں کو منطقی طورپر درست قرار دیا جاتا ہےجو کہ اسلام کی روح سے سراسر غلط ہے۔اسلام نے جہاد کےلیے بہت سے اصول اور قوانین واضح کردیے ہیں اور کوئی بھی باغی گروہ یا شخص خود سے جہاد کا اعلان نہیں کر سکتابلکہ یہ اختیار صرف حکومتِ وقت کو حاصل ہے کہ وہ جہاد کرنے کےلیے باقاعدہ اعلان کرے۔ طالبان کی قتل و غارت گری کو نہ تو جنگ کا نام دیا جا سکتا ہے اور نہ جہاد کا کیونکہ نہ صرف اسلام دنیا کے ہر قانون نے جنگ کے کچھ اصول وضع کر رکھے ہیں جن میں سفاکی، بربریت اور پُر امن شہریوں پر اندھی بمباری کی قطعاً گنجائش نہیں جبکہ اسلام نے تو جہاد کے ایسے زریں اصولوں سے دنیا کو روشناس کروایا ہے جن کی نظیر پوری تاریخ انسانیت میں نہیں ملتی۔ وہ کیسے انسان ہیں جن کے دل انسانیت سے یکسر خالی ہو چکے ہیں اور انہیں کسی بین الاقوامی اصول اور قانون کی پروا نہیں رہی؟

اسلام میں خودکش حملے حرام ہیں اور خودکش حملہ کرنے والے حرام موت مرتے ہیں۔ اسلام کبھی معصوم لوگوں کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا جبکہ عسکریت پسند دہشت گرد آئے روز خودکش حملے کر کے کئی معصوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں اور انسانیت کی تذلیل کر رہے ہیں کیونکہ انسانیت کی قدرومنزلت کی جو حقیقت اسلام نے بیان کی ہے اس کا ثبوت شاید ہی کسی اور مذہب میں ملے، اس لیے خودکش حملے غیر اسلامی ہیں۔لیکن دہشت گرد مسلسل معصوم لوگوں اور خاص طور پر کم سن بچوں کو خود کش حملہ آور کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور اسے اسلام کی روح سے درست گردانتے ہیں۔حتیٰ کہ سرکاری عمارات اور پبلک مقامات پر خودکش حملوں کے نتیجے میں ہزارہا سرکاری اہلکار اور بے گنا ہ شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

            نمازیوں پر حملہ کرنے والے اللہ کے سخت عذاب و قہر کےمستحق ہیں۔ مسجدوں پر حملے اور بے گناہ معصوم انسانوں کو شہید کرنا اسلام کی روح سے گناہ کبیرہ ہے اور ان کاروائیوں پر عمل پیرا لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔دہشت گردمساجد کو شہید کرنے، نمازیوں کے خون سے مساجد کے در ودیوار رنگنے، مزارات کی بے حرمتی کرنے اور انہیں شرک کے اڈے قرار دے کر مسمار کرنے میں مصروف ہیں۔دہشت گرداپنی غلط منطقی سوچ کی بنا پر مختلف عقائد اور مختلف مسلک سے تعلق رکنے والے افراد کو ان کی عبادت گاہوں میں ظلم وزیادتی کا نشانہ بنا رہے   ہیں ۔امام بارگاہوں ،مسجدوں اور مزاروں کو بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے ذریعے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا جواز انتہا پسند دہشت گرد یہ پیش کرتے ہیں کہ وہ تمام لوگ کافر ہیں اور اپنے عقیدے کی بنیاد پر زندہ رہنے کے مستحق نہیں۔

تعلیم کی اہمیت سے کوئی ذی ہوش انکار نہیں کر سکتا۔ طالبان نے اسلامی تعلیمات کے برعکس حصول ِ تعلیم پر پابندی عائد کر دی ہے اور تمام طالب علموں کو پابند سلاسل کر دیا۔ معصوم بچوں اور بچیوں کے سکولوں کو تباہ وبرباد کر دیا۔ جس سے سینکڑوں طالب علم اپنے بنیادی حق سے محروم ہو گئے ہیں۔دہشت گرداپنے انتہا پسندانہ نظریات کے باعث سرکاری اسکولوں کو غیر اسلامی تعلیم کے مراکز قرار دے کرانہیں گرانے اور اساتذہ کو قتل کررہے ہیں۔ 2006 سے 2015 تک سینکڑوں اساتذہ اور طلباء کو قتل کر دیا گیا اور سینکڑوں سکولوں کو جلایا اور گرایاجا چکا ہے۔

            بچوں اور خواتین کو اپنی کاروائیوں کے لیے بڑی سفاکی سے استعمال کر رہے ہیں۔اسلامی تعلیمات کی روح سے خواتین ، بچےاور بزرگ حالتِ جنگ میں بھی نرمی کے مستحق ہیں اور ہر قانون سے مستثنیٰ قرار پائے ہیں لیکن اسلامی تعلیمات کے برعکس یہ دہشت گرد نہ صرف ان معصوم لوگوں کو بم دھماکوں ،خودکش حملوں کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں بلکہ اپنی کاروائیوں میں استعمال کررہے ہیں۔ یہ کیسے مسلمان ہیں جو نہ صرف اسلامی جہاد کی شرائط اور ضابطوں بلکہ اسلام کی تعلیمات کو پامال کرتے اور بے گناہ مسلمانوں کا خون بے دریغ بہاتے جا رہے ہیں لیکن خود کو “مسلمان مجاہد” کہلوانے پربضد ہیں۔ان کے قول وفعل میں واضح تضاد ہے جو اپنے آپ کو اسلامی احکامات ماننے والے سچے مسلمان گردانتے ہیں لیکن ان کاہر عمل اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ جس کی روح سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ یہ مسلمان تو دور کی بات انسان کہلانے کے بھی حقدار نہیں ہیں۔ ان کی انسانیت سوز کاروائیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہیں اور پیسے کے لالچ میں اس ملک کو غیر مستحکم کرنے میں کوشاں ہیں۔

[/urdu]

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top