دہشت گردوں کے ہاتھوں بچوں کا استحصال ایک لمحہ فکریہ

[urdu]

aps2

دہشت گردوں کے ہاتھوں بچوں کا استحصال ایک لمحہ فکریہ

 ایس اکبر

 

وقتاً فوقتاً سوشل میڈیاپر ایسی خبریں اور ویڈیوشائع ہوتی رہتی ہیں جس میں بچوں کو دہشت گردی کی تربیت حاصل کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے تو کبھی وہ دہشت گردی کی کاروایئوں میں ملوث نظر آتے ہیں۔بچوں کو دہشت گردی کی کاروایئوں میں استعمال کرنے کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔بچوں کا دہشت گردی کی کاروایئوں میں استعمال کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔بچے جہاد اور حالتِ جنگ میں ہر طرح کے قوانین اور سزا سے مستثنیٰ ہیں۔یہاں تک کے بچے جہاد میں بھی حصہ نہیں لے سکتے ۔ بچوں کی نماز اور روزے کے لیے بھی اسلام نے ایک خاص عمر مختص کی ہوئی ہےاور اس عمر تک پہنچنے سے پہلے بچے کو کسی بھی طرح کا تشدد یا ظلم کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔دہشت گردی کی کاروائیوں میں معصوم بچوں کا بے دریغ اور جان لیوا استعمال دہشت گرد تنظیموں کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ تحریک طالبان گزشتہ کئی سالوں سے اپنی انتہا پسندانہ کاروائیوں میں کم سن بچوں کا استحصال کر رہے ہیں۔ بم دھماکے، خودکش حملےاور اب کم سن بچوں کا استحصال اس چیز کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ سفاک دہشت گرد نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی ان کا انسانیت سے کوئی تعلق ہے۔بچوں کو ان کاروائیوں میں استعمال کیا جانا خطرناک نتائج مرتب کر رہا ہے۔

            دہشت گرد ایک ایسے شکار کی تلاش میں ہوتے ہیں جو نہ صرف با آسانی دہشت گردوں کی باتوں پر عمل کرے بلکہ کبھی بھی اُن کے نظریے کے خلاف آواز نہ اٹھا سکے ۔ اس لیے دہشت گرد بچوں کی معصومیت سےناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بچوں کو ذہنی طور پر جس چیز کے لیے تیار کرنا مقصود ہو اس کے لیے یہ معصوم بآسانی تیار ہو جاتے ہیں بچے باآسانی ہجوم میں سرایت اختیار کر سکتے ہیں اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں استعمال ہو کر زیادہ جانی نقصانات کا باعث بن سکتے ہیں۔ بچے ذہنی طور پر نا پختہ ہوتے ہیں اس لیے ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بڑوں کے مقا بلے میں کم ہوتی ہےاس لیے دہشت گرد چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو اپنی صفوں میں شامل کر یں ۔ اسی کم عمری اور ذہنی نا پختگی کی وجہ سے یہ دہشت گردوں کا آسان شکار ہوتے ہیں چنانچہ اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے دہشت گرد مختلف طریقوں سےان کو انتہا پسندی کی طرف مائل کرتے ہیں ۔ انتہا پسند سوچ کسی بھی انسان کے لیے خوفناک ثابت ہو سکتی ہے اسی طرح انتہا پسندی کی ترغیب ان بچوں کے ذہن پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے ۔

امریکی نفسیاتی ادارے اے پی اے کے مطابق تشدد کی ترغیب بچوں میں تین قسم کے نفسیاتی اثرات پیدا کرتی ہیں۔ جس میں سب سے پہلے بچوں کے اندر دوسرے لوگوں کے لیے ہمدردی اور دکھ بانٹنے کا احساس ختم ہو جاتا ہے ۔ دوسرےیہ باقی دنیا سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں اور لوگوں سے دور دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور تیسری علامت یہ ہے کہ وہ دوسرے لوگوں اور بچوں کے طرف جارحانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں اور ضرورت سے زیادہ جذباتی اور تنگ نظرہوجاتے ہیں۔ ۔ اس تنگ نظری سے انتہا پسندی (extremism) جنم لیتی ہے، انتہا پسندی انسان کو جارحیت (aggression) پر اکساتی ہے اور پھر جارحیت کا نتیجہ دہشت گردی (terrorism) کی بھیانک صورت میں رونما ہوتا ہے۔ نفرت و تعصب اور جبر و تشدد کے اس مقام پر بچےکے اندر سے اعتدال و توازن (moderation) اور تحمل و برداشت (tolerance) کی صلاحیتیں سلب ہو جاتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بچے تشدد اور دہشت گردی کو عام عنصر تصور کرنے لگیں تو ان کی شخصیت سے یہ سوچ مٹا دینا ایک نہایت مشکل عمل بن جاتا ہے۔ انتہا پسندی کی طرف راغب یہ بچے باآسانی دہشت گردوں کی ترغیب کا نشانہ بن سکتے ہیں ۔جارحیت پسند بچوں کو گھر اور خاندان سے لاتعلق کرنا     دہشت گردوں کے لیے بے حد آسان ہو جاتا ہے۔ ان بچوں کی برین واشنگ کرکے انھیں دہشت گردانہ کاروائیوں کے لیے تیار کرتے ہیں پھر ایک بہت ہی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان کو دہشت گردی کی ترغیب دی جاتی ہے۔بچوں کی تربیت کے لیے مرحلہ وار تربیتی کورسز مرتب کیے جاتے ہیں جن میں کبھی وڈیو فلمز کے ذریعے اور کبھی براہ راست تربیت کے ذریعے ان معصوم ذہنوں کو دہشت گردی کی کارویئوں کا اتنا عادی بنایا جا تا   ہے کہ جب یہ ان کارویئوں میں خود ملوث ہوتےہیں تو انھیں کوئی بھی چیز معیوب یا اجنبی محسوس نہیں ہوتی ۔علاوہ ازیں کچھ غریب گھروں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو پیسوں کا لالچ دے کربھی مذموم کاروائیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے ہر انسان اپنی اپنی جگہ ذمہ دارہے۔خاص طورسے والدین پرصورت حال میں دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہےکہ ایک تو بچوں کو دہشت گردوں کےچنگل سے بچانے کی کوشش کریں اوردوسرا اُن کی ذہنی اور جسمانی تربیت اس لحاظ سے کریں کہ وہ اتنے خود اعتماد بن جائیں کہ دہشت گردوں کی ترغیب یا تربیت ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔اس کے علاوہ مدارس میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان کو پڑھائے جانے والے نصاب اور وہاں ہونے والی تمام سرگرمیوں سے باخوبی آگاہ رہیں۔ تا کہ کوئی بھی انتہا پسند ان بچوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال نہ کرسکے۔ والدین کو بچوں کے گھر اور سکول میں رویے کا بغور مشاہدہ کرتے رہنا چاہیے کہ کہیں بچوں کی شخصیت میں بدلہ، غصہ، جارحیت اور عدم برداشت جیسے عناصر تو پیدا نہیں ہو رہے۔ مزید برآں اگر بچے کا رویہ والدین اور اساتذہ کے قابو سے باہر ہو جائےتو فوراً ماہر نفسیات سے رجوع کریں۔اس ضمن میں اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلباءپر گہری نظر رکھیں اور جہاںان کی شخصیت میں بدلاو دیکھیں فوراًان کے والدین کو مطلع کریں۔سکولوں میں دہشت گردی سے آگاہی کے لیے با قاعدہ لیکچرز کا انتظام کرنا چاہیے تا کہ بچے ذہنی طور پر دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نپٹنے کے قابل ہو سکیں۔کمسن بچوں کا دہشت گردی کی کاروایئوں میں استعمال ایک خطرناک امر ہے ۔ اس سے بچنے کے لیے پوری قوم کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنا فرض ادا کرناچاہیے۔

[/urdu]

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top