لاہور میں پولیس لائن کے مین گیٹ پر خود کش حملہ

[urdu]

Need of Timely Action against Terrorism

لاہور میں پولیس لائن کے مین گیٹ پر خود کش حملہ

 ایس اکبر

سیاسی و عسکری قیادت نے اتفاق رائے سے نیشنل ایکشن پلان مرتب کرکے وطن عزیز کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کرنے کے لئے ہمہ جہت عملی اقدامات تیز کر دیئے ہیں تو اس کے ردعمل میں دہشت گردی نیٹ ورک نے بھی اپنی شیطانی کاروائیوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ پشاور اور شکار پور میں خود کش حملوں کے بعد کا لعد م تحریک طالبان پاکستان نے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لا ہور میں پولیس لائن کے باہر خود کش دھماکہ کر کے امن و سلامتی کے طالب اہل پاکستان کو یہ پیغام دیا ہے کہ ان کے جنونی انتہا پسند گروہ تمام تر سیکورٹی اقدامات کے با وجود بھی اہم مراکز کو اپنی تخریبی کاروائیوں کا نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔   17 فروری کو لاہور میں پولیس لائن کے مین گیٹ کے ساتھ خود کش دھماکہ کی ذمہ داری بھی طالبان گروہ     جماعت الاحرار نے قبول کر لی ہے۔ پولیس لائن پر خودکش حملے میں 2 تھانیداروں اور 5 شہریوں کی شہادت کا سانحہ رونما ہونے کے بعد انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس نے خود بھی تسلیم کیا کہ حساس اداروں نے لاہور شہر میں دہشت گرد خودکش حملہ آوروں کے داخلے سے آگاہ اور ان کے ناپاک عزائم کے بارے میں بھی متنبہ کر دیا تھا جس کے بعد لاہور میں سیکورٹی کو ہائی الرٹ کر دیا گیا تھا یہی وجہ ہے کہ خودکش حملہ آور اپنے ٹارگٹ تک نہ پہنچ سکے اور بوکھلاہٹ کے عالم میں پولیس لائن کے باہرہی خودکش دھماکہ کر دیا۔

قلعہ گجر سنگھ پولیس لائن کے گر د ونواح میں حساس نوعیت کے مقامات اور غیر ملکی سفارتی دفاتر بھی موجود ہیں اگر اس قسم کے اہم مقامات پر خودکش حملہ آور پہنچنے میں کامیاب ہو کر اپنی شیطانیت کا ارتکاب کر سکتے ہیں اور بعد از واردات خودکش حملہ آور کے دو ساتھی فرار ہوکر اپنے محفوظ ٹھکانے پر پہنچنے میں بھی کامیاب ہو سکتے ہیں تو پھر لاہو ر کے دوسرے حصوں میں سیکورٹی کے انتظامات کا کیا حال ہوگا ؟اس لئے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو اپنے آبائی شہر لاہور کو صحیح معنو ں میں محفوظ لاہور بنانے کے لیے مطلوبہ اقدامات میں مزید تاخیر نہیں کر نی    چاہیئے ۔جس کے لئے ضروری ہے کہ انسپکٹر جنر ل پنجاب پولیس کو مکمل طور پر فری ہینڈ دے کر پو لیس معاملات میں ہر سطح کی سیاسی مداخلت کو سختی سے ممنوع قرار دیا جائے۔ پنجاب پو لیس کے پاس تجربہ کار، فرض شناس ،دلیراور معاملہ فہم افیسران کی کوئی کمی نہیں ہے مگر سیاسی بنیادوں پر ہونے والے تقرر و تبادلوں کی وجہ سے پنجاب پولیس کی کارگردگی بری طرح سے متاثر ہو رہی ہے قو می سیاسی قیادت کے اتفاق رائے اور عسکری قیادت کی مشاورت سے تیار ہونے والے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے اور ملک بھر میں پھیلے ہوئے دہشت گردی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کے لیے حکومتی سنجیدگی پر بھی سوالات اٹھا ئے جا رہے ہیں مگر ہمیں اختلافی اور متنازع تبصروں کو اہمیت دینے کی بجائے اپنے حکمرانوں اور سیا سی قائدین کی نیت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر نے سے گریز و اجتناب کرتے ہوئے تلخ حقائق کو بھی نظر انداز اور مسخ نہیں کر نا چاہئے ۔بلاشبہ    وزیر اعظم نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمدکے لئے سنجیدہ اور مخلص ہیں۔وزیر اعظم کی تمام تر سنجیدگی اور اخلاص کے اظہار کے با وجود بھی عام شہریوں میں ہیجان و اضطراب کی کیفیت پریشان کن امر ہے جس پر وزیر اعظم اور ان کے مشیران خاص کی ٹیم کو بھی غور و فکر کرنا چاہیے اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے سلسلے میں عوامی توقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومتی کارکردگی کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کر نی چاہیے ۔رائے عامہ کے جائزے واضح کر تے ہیں کہ دہشت گردی کے عذاب ہائے سے مستقل طور پر نجات کے طالب اللہ راسی عوام اپنے ملک کی حکومتی، سیاسی اور مذہبی قیادت کی بجائے اپنے ملک کی عسکری قیادت سے توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں۔سانحہ قلعہ گجر سنگھ پولیس لائن کے جائے وقوعہ کے بعد نزدیک ترین واقع لاہور پریس کلب کے اندر اور باہر یہ سوال کیا جا رہا تھا کہ جب    آئی ایس آئی نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعلقہ اداروں کولاہو ر میں خود کش حملہ آور پہنچانے کے بارے میں قبل از وقت آگاہ کر دیا تو اس اطلاع کے با وجود لاہور میں سرچ آپریشن کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہ کی      گئی ؟اور آئی ایس آئی کے قبل ازوقت انتباہ کو نظر انداز کرنے کی غلطی کیوں کی گئی ؟ اس قدر مجرمانہ غفلت کا ذمہ دار کون ہے ؟ سب سے زیادہ تکلیف دہ سوال یہ بھی ہے کہ آئے روز رو نما ہونے والے سانحا ت میں معصوم شہریوں، فوجیوں اور پولیس اہلکاروںکی شہادت پر تعزیتی اور مذمتی بیانات جاری کرنے والے حکمران اور سیاسی قائدین اپنی آئینی، قانونی،اخلاقی اور شرعی ذمہ داریاں کما حقہُ ادا کرنے میں ناکام کیوں ہورہے ہیں؟اوراگر ہماری حکومتیں اور سول ادارے یونہی ناکام ہوتے رہے توان ناکامیوں کا انجام کیا ہوگا؟اور ہماری فوج کس کس محاذ کو سنبھالے؟در پیش تکلیف دہ صورت حال کے باوجود یہ امر بھی خوش آئندہ اور اطمینان بخش ہے کہ آئے روز کے خود کش حملوں اور دہشتگردی کے زبردست خطرات کا سامنا کرتے ہوئے بھی ہماری قوم کے حوصلے بلند ہیں۔ہمارے بازاروں کی رونقیں حسب معمول ہیں تو ہمارے بچے ذوق وشوق سے سکولوں ، کالجوںاور یونیورسٹیوں میں جا رہے ہیں۔محنت کش کارخانوں کا پہیہ چلا رہے ہیں۔ہماری مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں کمی واقع نہیں ہوئی تو امام بارگاہوں میں تڑپتے لاشے بھی ہماری سوگوار قوم کو خوف زدہ نہیں کر سکے اور اہل پاکستا ن زندہ و پا ئندہ قوم کی طرح ایک کے بعد دوسرا صدمہ برداشت کرتے ہوئے بھی یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے ملک کی بہادر افواج اپنے پاک وطن کو ہمہ قسمی انتہا پسندی اور جنونی دہشت گردی کی لعنتوں سے پاک و صاف کر نے میں کامیاب ہو جائیں گی۔زندہ و پائندہ قوم کے عزم و استقلال کا شاندار جذبہ اور اپنے ملک کی بہادر افواج پر غیر متزلزل اعتماد ہی ہمارے تابناک اور محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔ پوری قوم توقع کر رہی ہے کہ جس طرح افواج پاکستان وطن عزیز کو دہشت گردی سے پاک کرنے کی فیصلہ کن جنگ میں مسلسل کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں اُسی طرح ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے آئینی فرائض کی بجا آوری میں کو ئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کریں گی۔

[/urdu]

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top