مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

                                      سیّد ناصررضا کاظمیMuslims & Media1
اتنے غیر موثر‘ بے بس‘ کمزور‘ عاجز ولاچار حکمران چاہے اُن کی حکمرانی بادشاہت کی ہو‘ جمہوری ہو یا ڈکٹیٹر شپ کی ہو‘ اُن کا طرزِ حکمرانی جیسا تیسا ہی ہو،لیکن جتنے ڈھیلے ڈھالے اور ہمیشہ اپنے ہاتھ ملتے حکمران ہمیں میسر آئے ہیں یا ملتے رہے ہیں شائد ہی تاریخ ِ عالم میں کہیں آپ نے اِن جیسوں کا تذکرہ پڑھا ہوگا؟ اتفاقاً اگرکہیں کسی تاریخ کے صفحات پر ہمیں ایسے حکمرانوں کا کوئی ایک باب پڑھنے کو مل جا ئے یقین کیجئے ہم ذاتیات کے معاملے میں بعض اوقات بڑے متعصب ہوجاتے ہیں ذاتی پسند و حمایت کی بناء پر اپنی آنکھیں میچ لیتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ آنکھیں اور کان بند کرلینے سے کبھی تاریخ کا ’سچ‘ چھپا نہیں، چونکہ جو ’سچ‘ کل تھا،ہمیشہ وہ ’سچ‘ہی رہے گا،ہمیں سوچنا ہوگا ہم کب تاریخ سے سبق حاصل کرنے کے لئے خود کو بیباکی سے اندرونی بہادری کا عملی ثبوت پیش کرتے ہوئے ندامت سے شرمائیں گے نہیں‘ سچائی کو آگے بڑھ کر قبول کرلیں گے آئیے آگے چلتے ہیں دہشت وبربریت کی سفاکانہ اور ستم رسانہ شرمناک کارگزاریوں کے زور پر قوموں اور ملکوں کی تہذیب وثقافت کانام ونشاں تک خاکستر کر دینے والے چنگیز خان کے پوتے ہلاکوخان کو ہم اِس لئے نہیں بھول سکتے کہ اُس نے 1258 میں ایران پر قبضہ جمانے کے بعد اپنے گھوڑوں کی لگامیں جب بغداد کی جانب موڑی تھیں، تو قیامت خیز اُس ہیجانی آفت وابتلا کی سر وں پر پہنچ جانے والی ہولناک جنگی مصیبتوں سے بچاؤ کی فی الفور تدبیریں عملاً نافذ کرنے کی بجائے اُس وقت بغدادکے عباسی دور کا حکمران معصتم باللہ اقتدار کے نشے میں بد مست تھا وہ اپنے درباری علماء سمیت اُمراء اور شرفا ء کو جمع کیئے انتہائی فضول قسم کی بحث ومباحثے میں منہمک و مشغول رہا وہاں بحث ہورہی تھی کہ’کوا‘ حرام ہے یا حلال؟‘ اِسی دوران چنگھاڑتا ہوا‘ڈھاڑتا ہوا وحشت ناک گھوڑوں کی ٹاپوں نے معتصم باللہ کے محلات کو اپنی ٹاپوں تلے روند دیا درباری علماء اور اُمراء وشرفا کو کہیں چھپنے کی جگہ تک نہ ملی ہلاکوخان کی وحشی مزاج فوج نے بربریت کی انتہا کردی، دیکھتے ہی دیکھتے عروس البلاد بغداد کی اینٹ سے بجادی گئی صبح سے رات گئے تک ایک لاکھ کے قریب مسلمان مردوزن‘ جوانوں اور بچوں کو تاتاریوں نے بیدری سے تہہ تیغ کردیا اُس وقت کے مسلمان حکمرانوں کی بے بسی ولاچاری ایک ایسی ندامت خیز تاریخ ہے جس پر آج کا کوئی بھی باشعور دانشمند مسلمان فخر نہیں کرسکتا اسپین کے اشبیلا کی تاریخ نے تو ہمارے سر شرم سے جھکا دئیے ملکوں اور قوموں کے اقتدار کو اپنے خاندانوں کے نااہل‘ بے بصیرت‘ اور بے علم جہلا سپوتوں کو نسل درنسل منتقل کرنے والوں حکمرانوں کو تاریخ نے کبھی معاف نہیں کیا نجانے اقتدار کی حرص وہوس رکھنے والے ’وقت‘ سے سبق کیوں نہیں سیکھتے ’وقت‘ تاریخ ہے ’تاریخ‘ وقت کی مرہون ِ منت ہواکرتی ہے،  1258 کے سانحات کی یاد کرنے کی کچھ بنیادی وجوہ ہے جناب ِ والہ! یہاں ہم ہلاکو خان کی مدح سرائی نہیں بلکہ یہ یاد دلانا چاہ رہے ہیں آج 2015 ہے پاکستان کے سیاسی حکمرانوں سمیت پوری مسلم اُمہ کے حکمران تقریباً750 برس کے باوجود‘ عبرت ناک شکستیں بھگتنے کے بعد بھی آج کوئی اپنے شاہی درباروں میں اپنی پارلیمانوں  اپنے وقت کے یعنی آج کے ہلاکوخانوں‘ کی شناخت کرکے اُنہیں نیست ونابود کرنے پر خود کو یکجا نہیں کرپارہے اپنے یقینی دشمنوں کو جو قوم کے سروں پر گولیوں کی بوچھاڑ کرنے میں منٹ نہیں لگاتے اِ ن کے گھروں میں گھس کر اِ ن کے معصوم بچوں کو‘ عورتوں کو‘ بزرگوں و جوانوں کو ایک ایک کرکے نہیں بلکہ اِن کا اجتماعی قتل ِ عام کررہے ہیں پاکستان میں انسانیت کے خلاف اِن ہلاکو خانی دہشت گردوں کی یہ مذموم و قابل ِ نفریں کارروائیاں گزشتہ 6-7 برسوں سے متواتر جاری ہیں، رک نہیں رہیں، پاکستانی اپنے پیاروں کی لاشیں اُٹھاتے اُٹھاتے تھک چکے 1258 میں جیسے اُس وقت کے بغداد کا حاکم معتصم باللہ اپنے مذہبی علماء‘ سیاسی امراء و شرفا کا دربار سجائے ’حلال وحرام‘ کی بحثوں میں الجھا ہوا تھا اگر ہم اپنے آج کی ’پارلیمان‘ کا ویسا ہی حال دیکھیں تو کیسا تعجب؟ آج کے ہلاکو خانی دہشت گرد کھلے عام پاکستانی سول وملٹری سیکورٹی اداروں سمیت عام پاکستانیوں کی لاشوں پر لاشیں گراتے تھکتے نہیں ہمارے آئین وقانون کو سرے سے تسلیم نہیں کرتے یہ دہشت گرد چاہے کالعدم ٹی ٹی پی کے ہوں یا دولت ِ اسلامیہ داعش کے پیروکار کیا یہ گروہ یہ مسلح عسکریت پسند لوگ اپنی سفاکانہ بربریت‘ بے رحمانہ ظلم وستم کی پے درپے خود کش بمباری کی مذموم کارروائیوں کو اگر اسلام‘ دین‘ مذہبی فرقہ واریت کے نام پر‘اِس کے علمبردار بن کر انجام دیتے رہیں تو یہ سب جائز اور برحق مان لیا جائے؟ آرمی پبلک اسکول پشاور میں ہونے و الی 16 / دسمبر 2014 کو آج تقریباً20-25 دن گزر چکے‘ جبکہ پاکستان کی مسلح افواج 16 / جون2014 سے شمالی وزیر ستان میں چھپے انسانیت کے سخت ترین دشمنوں سے دوبدو نبرد آزما اپنے وطن کے تحفظ وبقاء کی حتمی جنگ لڑرہی ہے سانحہ آرمی پبلک اسکول کے ایک ہولناک واقعہ نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا قوم فوج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی تب کہیں حکمرانوں کے کانوں پر جوں رینگی جو کام یا قومی ذمہ داری 16 / جون2014 کے شروع کیئے گئے آپریشن ضرب ِ عضب کے فوراً بعد پارلیمنٹ کے اراکین کو نبھانی تھی کتنا وقت ضائع کردیاگیا،ہلاکو خانی دہشت گردی کے عفریت کی اصل مگر بھیانک تصویر سیکورٹی اداروں نے جب اِن ’معتصم باللہ ٹائپ‘ کے حکمرانوں کو دکھلائی تو یہ ’بھونکچے‘ رہ گئے اِن کے جسموں کے اعضاء تھر تھرانے لگے اِنہیں اپنا مستقبل خطرے میں دکھائی د ینے لگا، یوں فوراً یکا لخت پارلیمانی سیاست دان یک زبان ہوئے ’یہ دہشت گرد بڑے ظالم وسفاک ہیں جو انسانی کھوپڑیوں کو فٹ بال بناکر کھیلتے ہیں اِن کے ساتھ اب کوئی نرمی نہیں برتی جاسکتی‘ 6 / جنوری کو کافی بحث ومباحثہ کے بعد‘ کوئی ناخوش کوئی ناراض‘ کوئی شرمندہ بہر حال ’پارلیمنٹ‘ نے ملٹری کورٹس اور آرمی ایکٹ میں آئینی ترمیم منظور کرلی کسی کا یہ نکتہ بڑا تعجب خیزکہ’ملٹری کورٹس کے تفتیشی مندرجات میں سے لفظ ’مذہبی اور فرقہ وراریت‘ نکال دیا جائے‘ گزشتہ 9-10 برسوں سے ’مذہبی فرقہ واریت‘ کے نام پر دہشت گردی کا ایک بازار گرم ہے یہ دہشت گردی ’ہلاکو خانی‘ دہشت گردی کی صورت اختیار کر چکی ہے ’ہند کی القاعدہ سیکشن‘کے ترجمان اُسامہ محمودتک نے بھی پشاور سانحہ پر، جس طرح کی درندہ صفت دہشت گردی کی گئی ہے اُس کی مذمت کی ہے‘ یہاں اِس کا حوالہ دینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ دہشت گردوں کے اندر ایسے گروپس موجود ہیں جو معصوم اور ننھے منے پھول جیسے بچوں کے جسموں کو اِس بے رحمانہ اور بہیمانہ طریقہ ٗ ِ واردات سے اُڑانے پر کانپ گئے نہیں کاپنے‘ رحم نہیں آیا‘ دل د کھی نہیں ہوئے‘ اِس دہشت گردی پر جو سہمے نہیں یہ وہ لوگ ہیں، جو اِن دہشت گردوں کے لئے اپنے دلوں میں ’نرم رویہ‘ رکھتے ہیں، یہ کیسے مسلمان ہیں؟ 750 برس گزر چکے ہیں بحیثیت ِ مسلمان ہم نے ماضی کی کوتاہیوں سے کوئی ایک مفید سبق حاصل کیا؟ شائد نہیں‘ افسوس!یہ اِن کی کھلی دریوزہ گری ہے عقائد کے لبادوں میں ہر کسی نے اپنی سیاسی دکانیں چکا ئی ہوئی ہیں جذبے اِن کے خشک‘ عقیدے اِن کے کمزور‘نہ اِن میں عشق کا چمقاق رہا نہ انسانیت نوزی کایہ کوئی نیا چراغ روشن کرپا ئے‘ بقول شاعر مفکر علامہ اقبال۔
’بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے۔مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے‘۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top