نئی دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کو اُڑانے کی ۔دھمکی

aman kee asha سیّد ناصررضا کاظمی
بھارتی وزارتِ عظمیٰ کے عہدہِ جلیلہ پر نریندرا مودی کی شکل میں آر ایس ایس کے تربیتِ یافتہ ادنیٰ کارکن     ا فائز ہو جانا نہ صرف جنوبی ایشیا‘ ایشیا ‘بلکہ پوری دنیا کے امن پر بہت سنگین ’سوالیہ نشان ‘ ثبت ہوگیا  ے بھارتی مسلمانوں سمیت پاکستان کے ساتھ کانگریسی ملی جلی نام نہاد ’مفاہمانہ سیاست ‘سے تعصب برتنے والے براہمنوں نے بھارتی معاشرے میں سماجی جبریت کے خاتمہ کے نام پر دیش میں آباد مسلم اقلیت کو جڑ بیخ سے اُکھاڑ دینے کے لئے اپنی ’جمہوریت ‘ کا ہی استعمال کیا دیش بھر کے سب سے بدنام شخص ‘ دیش پر ہی کیا منحصر ؟ مغرب ‘ برطانیہ اور امریکا میں ’گجرات کے قصاب ‘ کی ایک بدنام شہرت رکھنے والے سابق وزیر اعلیٰ نریندرا مودی کو سیاست دانوں کی بھیڑ کے کیچڑ میں سے نکال کر اُسے دیکھتے ہی دیکھتے صفِ اوّل کا لیڈربنا دیا یہ وہ ہی نریندرا مودی ہے نا ، جسے کل تک پورا مغرب اور امریکا انسانی حقوق کے کھلے قتلِ عام کا مجرم گردانتا ہے جسے امریکا نے اِن ہی وجوہ کی بناء پر ویزہ دینے سے انکار کردیا تھا مگر اب امریکا اور مغربی ممالک کیا کریں گے جب واشنگٹن اور لندن میں اِس کے لئے سرخ قالین بچھائے جائیں گے اِسے دنیا کی عظیم جمہوریہ کا وزیر اعظم ہونے کے ناطے وی وی آئی پی پروٹوکول دینا پڑے گا بھارت کی ’’جمہوری فکر کی عظمت ‘‘ جس کا کل تک پوری دنیا میں بڑا عزت و احترام کیا جاتا رہا دیش کا میڈیا تو رہا ایک طرف‘ بھارتی سول اور ملٹری اسٹیبلیشمنٹ نے امریکی سرپرستی کی چھاؤں میں پاکستان کے چند میڈیا ہاؤسنز کے ٹی وی چینلز اور اخبارات کو اربوں روپے کے اشتہارات کی لالچ میں خریدا بیرونی اور اندورنی اِن میڈیا ہاؤسنز نے گجرات کے ’قصاب ‘ مودی کی شخصیت کو ’ہندو متعصب ‘ ظاہر کرنے کی بجائے اُسے ’بہترین ‘ معیشت دان ثابت کرنے جو لاحاصل کوشش کی اُس کوشش کے غبارے میں سے اُس وقت تو یقیناًہوا نکل گئی ہوگی جب آر ایس ایس اور اِس کی بغل بچہ جنونی ہندو تنظیموں نے بھارتی وزیر اعظم کا عہد سنبھالتے ہی نئی دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کو دھمکی آمیز ایک خط لکھ دیا یقیناًپاکستانی حکمرانوں کو اب تک اِس مبینہ دھمکی آمیز خط کے موصول ہونے کے بعد اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر کو فوراً طلب کرلینا چاہیئے تھا تاکہ آر ایس ایس کی اِس جنونی شیطانی حرکت پر پاکستانی قوم کی ترجمانی کا جو حق ہے اُسے پوری مضبوطی سے نئی دہلی کی نئی انتظامیہ سے منوایا جاسکے ہمیں نہیں معلوم کہ حکومت اِ س بارے میں اب تک کیا کچھ اقدمات اُٹھا چکی ہے بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے بھارت سمیت پوری دنیا میں مختلف ناموں سے کئی تھنک ٹینکس تجزیوں‘ تبصروں اور بھارتی مفادات ‘ جائز و ناجائز مفادات کو عوامی رائے عامہ کی حمایت حاصل کرنے میں مختلف امور سرانجام دے رہے ہیں اِس کام پر دنیا بھر کی مسلم دشمن ممالک اور عالمی تنظیموں نے بے دریغ فنڈز کے ڈھیر اُن تھنک ٹینکس کے ماہرین کے لئے لگا دئیے ہیں مثلاً بھارت میں قائم ایسا ہی ایک تھنک ٹینک’ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سینٹر فار دی ڈیولپنگ سوسائٹیز‘ نے اپنے ایک سروے میں یہ مضحکہ خیز دعویٰ کیا ہے کہ بھارت کے سولہ، سترہ کروڑ مسلمانوں کے ووٹ کا’’ نو فیصد‘‘ حالیہ انتخابات میں نریندرا مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے حصے میں آیا جس کا یہ مطلب ہوا کہ بھارت کی نوجوان مسلمان آبادی نے گجرات کے قصاب نریندرا مودی کے معاشی خوش حالی کے نعرے نے بہت زیادہ متاثر کیا اب ہمارے اِس سوال کا جواب ہے کسی کے پاس؟ بھارت کی نوجوان مسلم آبادی جو پہلے ہی بھارت میں اِس مذہبی ثقافتی حوالے سے شک‘ نفرت اور تعصب کی بنیاد پر ’پوائنٹ آؤٹ ‘ ہوتی چلی آرہی ہے کہ بھارتی مسلمانوں کی نئی نسل نئی دہلی سرکار کی مسلم دشمن پالیسیوں کو قطعی پسند نہیں کرتی حالیہ2014 کے بھارتی انتخابات میں یقیناًمودی نے اپنی حمایت میں نئے ووٹرز کو باہر ضرور نکالا مگر ’ہندوتوا ‘ کے راج پاٹ کے نام پر اُنہیں مرعوب کیا گیا غیر ملکی غیر جانبدار تجزیہ کاروں کے مطابق ‘ اِس بار تو بھارتی مسلمان مسلسل ’کنفیوژن ‘ کا شکار رہے بھارت ماتا ‘ گو ماتا ‘ قربانی کے نام پر گائیوں کو ذبح نہ کرنے کے نام پر ‘ ایودھیا میں رام مند ر کے قائم کرنے کے نام پر ’ہندوستان صرف ہندوؤں کے لئے ہے اِس نعرے کے نام پر ‘ دیش بھر کی مساجد میں لاوڈاسپیکر پر اذانوں کی پابندی عائد کرنے کے نام پر ‘ بی جے پی نے نریندرا مودی جیسے دریدہ دہن کو یہ ٹاسک دیا ہے کہ وہ ’پاکستان کو اُس کی اوقات میں دکھا دے؟ ‘( اللہ تعالیٰ اِس کے یہ ناپاک منصوبے خاک نشین فرمائے آمین ) نریندرا مودی کی سوئپ کامیابی پر بھارت کے عام مسلمان اور مختلف بھارتی مسلمان تنظیموں کے ردعمل کے فرق کوسمجھنے کی بات کرنے والے یہ تاثر دینے کی ناکام کوشش میں مصروفِ عمل ہیں کہ بھارتی مسلمان گجرات کے گودھرا سانحہ کو بھول چکے اب وہ نریندرا مودی کی ’معاشی ‘ ترقی کے ثمرات سمیٹنا چاہ رہے ہیں جی نہیں جناب ایسا بالکل نہیں ہے اِس کی واضح مثال ہم   بھارتی ریاست آسام میں’ آل انڈیا ڈیمو کریٹک فرنٹ ‘ کے اُن مسلمان اراکین کی جیت میں دیکھ سکتے ہیں جہاں اِس مسلم فرنٹ نے دو نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے  یہ ثابت کیا ہے بھارت کی دیگر مسلمان تنظیمیں تاحال’ مودی حکومت‘ کے متعلق کوئی واضح موقف اپنانے کے بجائے’انتظار کرو اوردیکھو‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، سینٹر فار دی سٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز کے مبصرین کا جہاں تک یہ کہنا کہ بھارت کی نوجوان مسلمان آبادی پاکستان سے1971جیسی وابستگی محسوس نہیں کرتی ‘ یہ بھی ایک کھلا جھوٹ سروے ہے چونکہ سبھی جانتے ہیں کہ بھارت کی جنونی متشدد ہندو مسلح تنظیمیں ’ہندوتوا‘ کی پرچارک بھارتی مسلمانوں پر تقسیمِ ہند کے بعد سے آج تک یہ الزام عائد کرتی چلی آرہی ہیں کہ یہ بھارتی مسلمان پاکستان سے جذباتی مذہبی وابستگی رکھتے ہیں واشنگٹن کے تھنک ٹینک یو نا ئیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس (USIP) سے منسلک کے تجزیہ کار وں کے حالیہ تجزیوں اور تبصروں سے استفادہ کیئے بغیر ہم اپنی بحث سمیٹ نہیں پائیں گے (USIP) والے کہتے ہیں کہ’ پاک بھارت تعلقات‘ میں اب تک اگر کسی اعلیٰ پائے کے بھارتی لیڈر کی نیت کی کسوٹی کو سچائی پر پرکھا جائے تو بی جے پی کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے تاریخی کردار کی اہمیت کو بھلایا نہیں جا سکتا جو قوم پرست ہو کر بھی اپنے اعتدال پسند انہ روشن خیال پُرامن نظریات کی وجہ سے ہمیشہ یاد کئے جاتے ر ہیں گے’تاہم(USIP) کے بقول نریندرا مودی کے انسانیت کش ماضی کی بھیانک تفصیلات کل بھی متنازع تھیں ہمیشہ متنازع رہیں گی جس کی تازہ مثال اُن کے اُس بیان میں واضح محسوس کی جاسکتی ہیں   میں اُنہو ں نے ممبئی حملوں کے بارے میں دیا تھا بھارتی ہندو جنونی نوجوانوں نسل کو پاکستان سے گمراہ کرکے مودی نے جنوبی ایشیا کے امن کے لئے اہم کردار ادا نہیں کیا   امریکی تھنک ٹینک یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے مطابق نریندرا مودی عالمی سطح پر اپنا مسلم دشمنی اور پاکستان مخالفت کے منفی تاثر دور کرنے کے لئے بہت زیادہ محنت کرنا ہوگی اُن کی اوّلین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اُن بھارتی حلقوں کا فوری پتہ چلوائیں جنہوں نے نئی دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کو دھمکی آمیز خط لکھ کر پاکستانی قوم میں اشتعال انگیز جذبات واحساسات کو چنگاری دکھلا دی ہے ۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top