پاکستان اور سری لنکا کے تعلقات پر’’ عالمی مہروں‘‘ کی نظرِ

 عمران دانشpakistan-vs-sri-lanka-live-matchحسد ‘ گھمنڈ‘ تکبر‘ نخوت اور رعونت جب کسی شخص کی جسمانی ساخت کے رگ وپے میں روح کی مانند سما جائے تو ایسے اشخاص چاہے وہ عورت ہو یامرد ‘ جوان ہو یا بوڑھا عقل وشعور کی بے مایہ دولت سے بالکل تہی دست ہوکر اپنی خود ساختہ دنیا کا ایسا فرد بن کر رہ جاتا ہے جو کبھی اپنی غلطی کو غلطی نہیں سمجھتا اپنے ناجائز اقدامات کو ہر قیمت پر جائز سمجھنا اُس کی عادتِ ثانیہ بن جاتی ہے خود پرستی اور خود ستائش کے نشے میں مست ایسے افراد بلا استحقاق ہر معاملے میں اپنی ٹانگ پھنسا تے ہیں ہر معاملے کو اپنی انّا کا معاملہ سمجھنے لگ جاتے ہیں اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرنا ضرورت سے زیادہ شہرت کی دوڑ دھوپ میں ہمہ وقت مبتلا رہنا ایسوں کو سکھ چین سے بیٹھنا اچھانہیں لگتا یہ سب قسمت کی یاوری کی باتیں ہیں اگر کوئی کتنا ہی بلند مقام پالے اگر خواہشات کے سرکش گھوڑے پر سوار ہو تو کوئی اُسے کیسے روکے اور کیونکر روکے انگلیوں پر گن لیں تو ہمیں خود اپنے اردگرد ایسی کئی متنازعہ شخصیات ’شہرت مزید شہرت‘ کے حصول میں غرق خواہشات کے بے مہار سرکش گھوڑوں پر سوار نظر آجائیں گی اُنہیں اِس سے کوئی غرض نہیں کہ اُن کے اعمال کے نتائج اُن کے اپنے سماجی وثقافتی معاشرے پر کس قدر مضر اور گہرے ثابت ہوسکتے ہیں کسی حد تک خطرناک بھی ‘ یہ ایک نامور خاتون شخصیت کا تذکرہ ہے کالم کے آخر میں ان ’صاحبہ‘ کامختصراً تعارف ہے، برنارڈ شا نے کہا تھا ’’امن دوجنگوں کے درمیان ایک وقفہ ہے ‘‘ اگر ہم برنارڈ شا کے اِس خیال سے اتفاق نہ بھی کریں تو ہمیں یہ مان کر چلنا ہوگا ہر آدمی فطرتاً جنگجو واقع ہوا ہے ‘ایسوں کی طبیعی تخریبی توانائیوں کو قابو میں رکھنے کے لئے سینکڑوں برسوں سے کئی تنظیمیں بنیں اور ٹوٹیں جنگِ عظیم دوئم کے بعد سے اب تک ’اقوامِ متحدہ ‘ کی شکل میں ایک عالمی تنظیم کا وجود اِسی سلسلے ایک کڑی کی صورت میں بہر حال کسی نہ کسی طور سے تسلیم کیا جاتا ہے ’اقوامِ متحدہ ‘ بہرحال دنیا بھر کے انسانوں کے لئے ’امن ‘ کے نام پر ہی سہی ‘ ہم سب اُسے مانتے ہیں اقوامِ متحدہ دنیا بھر کے انسانوں کے شدید مشکلات ومصائب کے ازالہ کے لئے اپنا کوئی ’عالمی کردار ‘ ادا کرتی ہے یا نہیں ‘ بحیثیتِ پاکستانی قوم کے ہمیں اقوامِ متحدہ سے ہمیشہ شکوہ ہی رہا چاہے مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی آئے روز کی پائمالیوں کی شکایات کا ڈھیر لیئے ہم اقوام متحدہ کے سامنے گزشتہ67 برسوں سے احتجاج کرتے رہیں اقوامِ متحدہ والوں کے کانوں پر مجال ہے جوں تک رینگ جائے، چیختے چلاتے رہیئے، یہ عالمی ادارہ مغربی عالمی طاقتوں کے اشاروں پر اپنے فیصلے سنانے کا تقریباً عادی ہوچکا ہے اقوامِ متحدہ اور اِس کے ذیلی عالمی ادارو ں کے حکام نے ہمیشہ اپنی متعصبانہ عینکوں سے مسلم دنیا اور جنوبی ایشیا میں خاص کر پاکستان کے ساتھ انصاف برتنا تو رہا ایک طرف پاکستان کو مزید دشوار ترین مراحل سے دوچار کرنا مناسب جانا اور جان بوجھ کر ایسے متنازعہ اقدامات اُٹھائے جس کی بناء پر پاکستان کو اپنے خطے میں زچ اُٹھانے پڑے جنوبی ایشیا کے اہم ممالک میں پاکستان اور سری لنکا کے مابین آئے روز کی بڑھتی ہوئی دوستی اور باہمی ثقافتی تعلقات کسی کو تکلیف پہنچانے کا قطعی سبب نہیں ‘ دونوں ترقی پذیر ملک زندگی کے ہر شعبے میں ایک دوسرے کی طرف بے پناہ اعتماد کے رشتوں میں جڑتے چلے جارہے ہیں سری لنکا اور پاکستان دونوں جمہوری ملک ہیں ایک دوسرے کی سیاسی وسماجی اور تہذیبی ترقی کے ہمہ وقت مددو اعانت کرنے میں سبقت لیجانے سے آگے بڑھنے کی شہرت رکھتے ہیں سری لنکا اور پاکستان کی ایک مماثلت ایسی ہے جس سے انکار ممکن نہیں ‘ جیسے آج ہمارا ملک پاکستان بدترین اندرونی دہشت گردی کی جنگ کا سامنا کررہا ہے ایسی ہی بلکہ اِس سے بھی شدید جنونی انسانیت کش دہشت گردی کے ایک طویل سلسلہ کا سامنا سری لنکا کو بدنامِ زمانہ ’تامل ایلام لبریشن ٹائیگرز ‘ کی دہشت گرد تنظیم کی صورت میں کرنا پڑا جو بھارت نے سری لنکا میں انسپانسر کی تھی اِس دہشت گرد تنظیم کا سربراہ ’پر بھارکن ‘ تھا بھارتی سرپرستی میں اِس دہشت گرد تنظیم کی طاقت کے عروج نے کئی نامور سری لنکن سیاست دانوں کو خود کش بمبار کے حملوں میں ہلاک کیا سری لنکا کے شمال اور مشرق میں آگ اور خون کا ہولناک اور بہیمانہ کھیل برسوں کھیلا جاتا رہا بلاآخر سری لنکن فوج نے دہشت گردی کے اِس بڑھتے ہوئے انسانیت سوز عفریت کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور یوں 2009 میں پربھارکن کی موت کے ساتھ ہی سری لنکا کے عوام نے سکھ کا سانس لیا جنوبی ایشیا ئی ممالک کے عوام کو اپنے سامراجی عزائم کے شکنجے میں جکڑنے والے ’عالمی گیمرز‘ نجانے شطرنج کی بساط پر کیسے کیسے مہرے کھیلنے میں جتے ہوئے ہیں اقوامِ متحدہ نے آخر کیوں برسوں گزرنے کے بعد سری لنکا میں اپنی موت آپ ختم ہوجانے والی دہشت گردی میں ’انسانی حقوق ‘ کی بے حرمتی کرنے کی تحقیقات کا یہ نیا ڈرامہ کیوں رچایا شائد ہی کوئی اِس سوال کا جواب دے پائے ہمارا سوال اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے اعلیٰ حکام سے یہ ہے کہ سری لنکا میں دہشت گردی کی بیخ کنی کرنے والی جنگ میں تحقیقاتی کمیشن میں پاکستان کی شہریت کی حامل خاتون شخصیت ’عاصمہ جہانگیر ‘ کو نامزد کرکے آخر یہ عالمی ادارہ سری لنکا اور پاکستان کے مابین سفارتی تعلقات میں شکوک وشبہات پیدا کرکے پاکستان کو کیا پیغام دینا چاہتا ہے اور سری لنکا کی ریاست اور حکومت کو پاکستان سے بدگمان کرنے کی کس پالیسی پر گامزن ہے ؟ سری لنکا میں بطور عالمی تحقیقاتی رکن کے عاصمہ جہانگیر کی نامزدگی پر پاکستان کے تحفظات کا خیال کیئے بغیر اقوامِ متحدہ کے اعلیٰ حکام کایہ رویہ پاکستانی قوم کے نزدیک قابلِ مذمت مان جائے گا عاصمہ جہانگیراپنی حیثیت میں یقیناًانسانی حقوق کی قابل قدر ’ایکٹوسٹ‘ ہونگی؟ اُنہوں نے اِس میدان میں بڑا کام کیا بڑ انام بنایاکالم کے ابتداء میں ’بڑے نام ‘ بنانے والوں کی جس تعریف کا ذکر ہے یہ صاحبہ بھی اپنے کام اور اپنے نام کے اعتبار سے اُسی مخصوص زمرے میں شامل ہیں اقوام متحدہ کی ’عالمی لابیوں ‘ کے شہ نشین شائد سری لنکا کی حکومت کے پیچھے پڑ گئے ہیں اُن کے مذموم خفیہ عزائم کا ہمیں کوئی علم نہیں ہے مگر پھر بھی پاکستان کی نظریاتی اساس کی کٹر کھلی مخالفت پر ہمہ وقت اپنا یکطرفہ معاندانہ موقت رکھنے میں عاصمہ جہانگیر نے کبھی اپنے آپ کو پس منظر میں رکھنے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی اِس کے برعکس وہ ہر عالمی فورموں پر پاکستانی موقف کی مخالفت کرتی نظر آئیں کیا یہ سب کچھ اقوامِ متحدہ والے جانتے ہوئے سمجھتے کیوں نہیں؟ اُنہوں نے سری لنکن حکومت اور عوام کو پاکستان سے ’مخاصمانہ ‘ فاصلہ پیدا کرنے کے لئے بطور ایک ’ایفکٹیو ٹولز ‘ کے عاصمہ جہانگیر کا انتخاب کرنا کیوں ضرور ی سمجھا؟ جبکہ پاکستان تو پہلے ہی سے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے پیش کی گئی ہر قرار داد کا احترام کرتا چلا آرہا ہے متذکرہ بالا تحقیقاتی ٹیم میں پاکستان بھی اِس عالمی تحقیقات حصہ ضرور بنے گا مگر جنابِ والہ! وقت سے قبل عالمی سطح پر ہونے والی اِس تحقیقات کو پاکستان کی سطح پر سری لنکن حکومت کی نظر میں متنازعہ کیوں بنایا جارہا ہے؟ یہاں اب پاکستانی قوم کو دیکھنا یہ ہوگا ’کیا دوعلاقائی دوست ممالک پاکستان اور سری لنکا کے باہمی تعلقات میں بدگمانیوں کی دراڑ ڈالنے والے اپنی اِس مبینہ سازش میں کامیاب ہوپائیں گے یاسری لنکن حکومت عالمی ساز ش کاروں کی چالوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے میں سرخرو ہوگی۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top