اصل مسئلہ کشمیردہشت گردی اس کی شاخ ہے

indian army in Kashmirنغمہ حبیب
کاش بھارت پاکستان کا ہمسایہ نہ ہوتا یا اگر ہوتا تو وہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ مہذب انداز میں رہنے کا طریقہ جانتا اور کاش کہ برطانیہ جاتے ہوئے کشمیر کا مسئلہ اپنے پیچھے چھوڑ کر نہ جاتا۔کشمیر جغرافیائی اور مذہبی لحاظ سے پاکستان کا قدرتی حصہ ہے لیکن بھارت اس پر زبردستی قبضہ کیے ہوئے ہے اور اپنی آزادی کی خاطر لڑنے والوں کو انتہائی سخت اور ظالمانہ طریقے سے کچلنے میں مصروف ہے اور انہیں دہشت گرد قرار دیتا ہے جبکہ بھارت کشمیر میں جو کچھ کر رہا ہے وہ بذات خود دہشت گردی کی انتہا ہے۔ وہ یہاں کے باشندوں کی زندگی اور موت کا خود کو مالک سمجھتا ہے جب چاہتا ہے ان کا قتلِ عام شروع کر دیتا ہے جب چاہتا ہے تشدد کا نشانہ بناتا ہے اور پھر عالمی سطح پر دراندازی کا رونا رونے لگتا ہے، بین الاقوامی فورموں پر مسئلہ اٹھا تا ہے اور اپنی مکارانہ چالیں چلنے لگتا ہے لیکن ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے اجلاس میں بھارتی مندوب اس وقت لاجواب ہو گیا اور اسے خاموشی کا سہارا لینا پڑا جب کشمیری رہنما سید فیض نقشبندی نے بھارت کے مظالم کا پردہ چاک کرتے ہوئے دلخراش حقائق اجلاس کے سامنے رکھے تقریباََ ایک لاکھ کشمیری حریت پسندوں کا قتل، لاکھوں یتیم بچوں کی ایک پوری نسل، اجتماعی قبریں،زندہ درگور بیوائیں اور بھارتی فوجیوں کی درندگی کا نشانہ بننے والی نوجوان لڑکیا ں یہ سب مظالم کشمیر میں ہو رہے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ وہ اپنے حقِ آزادی سے دست بردار ہونے کو تو تیار نہیں ہو سکتے لہٰذا وہ یہ سب کچھ برداشت کر رہے ہیں۔بھارتی جیلوں میں موجود پانچ ہزار کشمیری اُس وقت کا انتظار کر رہے ہیں کہ اُن پر کوئی مقدمہ شروع تو کیا جائے تو وہ جُرم انہیں بھی معلوم ہو جائے گا جوانہوں نے کیا ہے یا کیا ہی نہیں ہے۔ بھارت کا حملہ کسی ایک طرف سے نہیں جو وہ پاکستان پر کر رہا ہے۔ سرحدوں پرآئے روز اُس کی فائرنگ اور معصوم شہریوں کی شہادتیں بھارت کی ایک اور دہشت گردی ہے وہ بلا اشتعال فائرنگ کرتا ہے اور پھر الزام پاکستان پر دھردیتا ہے لیکن عالمی طاقتیں اس کے خلاف آواز اُٹھانے سے کتراتی ہیں ہاں پاکستان کو ہر قسم کے مشوروں سے نوازا جا تا ہے۔کشمیر پاکستان اور بھارت کے بیچ بنیادی مسئلہ ہے باقی تمام مسائل اسی جڑ سے نکلنے والی شاخیں ہیں جنہیں اگر کاٹ بھی دیا جائے تو زندہ جڑ دوبارہ پھل پھول کر ایک نیا درخت بنا دے گی لیکن اس بات کا احساس کیے بغیر بلکہ اسے جان بوجھ کر نظر انداز کر کے بھارت دہشت گردی کو بنیادی مسئلہ بنا کر پیش کرتا ہے۔ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس 2015 میں بھارتی وزیراعظم مودی کی بجائے وزیرخارجہ سشما سوراج خطاب کریں گی اور دہشت گردی کو پاک بھارت ایشو کے طور پر پیش کیا جائے گا یعنی جڑ کاٹنے سے پھر گریز کیا جائے گا۔ بھارت کو اپنا موقف پیش کرنے کا پورا حق ہے لیکن اگر عالمی طاقتیں اسے یہ مشورہ دیتی کہ مسائل کی اصل وجہ پر توجہ دی جائے تو بہتر ہوتا لیکن ہوا یہ کہ امریکہ نے محاذ آرائی سے گریز کے نام پر پاکستان اور بھارت کو مشورہ دے کر اصل مسائل سے بھی گریز کا مشورہ دیا ہے۔دہشت گردی پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک مسئلہ ضرور ہے اور بھارت مسلسل اس کا مرتکب ہو رہا ہے ایک طرف وہ سرحدی دہشت گردی کر رہا ہے اور دوسری طرف دراندازی، نہ صرف مشرقی سرحد سے بلکہ مغربی سرحد پر بھی اس کی موجودگی ثابت شدہ ہے۔ افغاانستان کے راستے پاکستان میں نہ صرف دہشت گردداخل کرتا ہے بلکہ انہیں مالی معاونت بھی فراہم کرتا ہے۔ آپریشن ضرب عضب اگر چہ کامیابی سے جاری ہے اور دہشت گردوں کی کمر کافی حد تک ٹوٹ بھی چکی ہے لیکن بھارت اور اس کے دیگر معاونین اب بھی اپنا زور لگارہے ہیں اور پاکستان میں امن کی بہتر ہوتی صورت حال کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کی یہ کاروئی بلاامتیاز ہر دہشت گرد کے خلاف ہے پھر بھارت امریکہ یا عالمی میڈیا کیسے پاکستان سے مزید اقدامات کا مطالبہ کر سکتا ہے یا مشورہ دے سکتا ہے لہذا پاکستان کو صلح جوئی کا مشورہ دینے کی بجائے اگربھارت کو مجبور کیا جائے کہ وہ کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرے تو دوسرے تیسرے تمام مسائل حل ہو جائیں گے اور خطے میں امن قائم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top