خلافت کے بارے میں امام حسن و حسین میں کیا اختلاف تھا؟

muharamسمیع اللہ ملک

اسلام کی روح یہ ہے کہ وہ ناحق اورباطل کے سامنے سرکٹا دے لیکن ہرگزاس کوجھکنے نہ دے۔ اس عظیم عمل کوشہادت کہتے ہیں اوراس شہادت کی اعلیٰ ترین مثال اورتکمیل کا نام بلاشبہ”شہادتِ حسین”ہے جنہوں نے چھ ہزارکے لشکرکے سامنے عام روایت کے مطابق بہتر(٧٢) مجاہدوں کے ساتھ ٹکرلی اوران ظالم حکمرانوں کے سامنے سرجھکانے کی بجائے لڑکراپنی جاں جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ یہی وہ کردارہے جس کی بناء پرہم یوم عاشورہ کی یاد مناتے ہیں۔ لیکن تاریخ کے جھروکوں کوبغوردیکھیں توہمیں حضرت حسن اورحضرت حسین علیہم السلام دومختلف قسم کے طریقہ کارکی علامت نظرآتے ہیں۔ ہمیں جہاں حضرت حسین سیاسی طریقہ کارکے علمبردارنظرآتے ہیں وہاں حضرت حسن غیرسیاسی طریقہ کار کی حکمت کے میناردکھائی دیتے ہیں۔ حضرت حسین نے حاکم وقت کے ساتھ جنگ کرکے جوسیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی وہاں یہی مقاصد حضرت حسن نے جنگ کے میدان سے واپسی کے ذریعے حاصل کئے۔ اس اہم اورلطیف فرق کوسمجھنے کیلئے ہمیں تاریخ کی اس تصویرکے ہر پہلو کوبڑی ایمانداری سے دیکھنا ہوگا اور ان تاریخی واقعات کوسامنے رکھ کران عظمتوں کی مینارۂ ہدائت کواپنی قوموں کی زندگی کیلئے مشعلِ راہ بنانا ہوگا۔

تاریخ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ مکہ میں قدیم زمانے سے قریش کے دوخاندان بنو ہاشم اوربنو امیہ آباد تھے اوران میں خاندانی رقابت بھی چلی آ رہی تھی۔ لیکن جب بنوہاشم کے ایک فرزند نے نبوت کادعویٰ کیا تو مخالفت میں بنو امیہ سب سے آگے تھے۔ لیکن فتح مکہ (٨ھ) کے بعدعرب کے دوسرے قبائل کی طرح بنو امیہ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے اور عہد رسالت میں اور خلافتِ راشدہ میں بنوامیہ کے لائق افراد نے مختلف اسلامی عہدے بھی حاصل کئے جس کی ایک درخشاں مثال حضرت عثمان ابی عفان ہیں۔اس دورمیں (٢٥ھ تا٣٥ھ) میں بنوامیہ کا اثرو رسوخ تمام دوسرے قبائل سے کہیں زیادہ ہوگیا۔ اس کے بعد جب حضرت علی ابن طالب کا انتخاب بطور امیر المومنین ہوا تو اس وقت بنوامیہ نے محض شہادت عثمان کے مسئلہ کوبنیاد بنا کر پہلے ہاشمی خلیفہ کے خلاف پرانی رقابت کو از سر نو زندہ کردیا جس کی وجہ سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا پورا زمانہ خلافت (٣٥ھ تا٤٠ھ) باہمی خانہ جنگیوں اور شورش میں گزرا’اورآخراس کی انتہاء ایک جنونی عبدالرحمان ملجم کے ہاتھوں شہادت کے ذریعے ہوئی۔

حضرت علی کی شہادت کے بعد آپ کے لختِ جگرحضرت حسن کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت ہوئی ۔اس وقت صورت حال یہ تھی کہ صرف عراق اور خراسان کی خلافت امام حسن کے حصے میں آئی جبکہ شام ،فلسطین، یمن، حجاز اور مصر وغیرہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان اموی کے زیرقبضہ تھے جنہوں نے خونِ عثمان کے مسئلے کی بناء پر حضرت علی کی بیعت سے انکار کر دیا تھا۔ وہ بھلا اب حضرت امام حسن کوخلیفہ کیسے تسلیم کرلیتے؟ ربیع الاوّل ٤١ھ کو صورتحال اس نوبت کو آن پہنچی کہ امام حسن کے ساتھ چالیس ہزار سے زائد مسلح افراد تھے اوردوسری طرف حضرت امیر معاویہ کے جھنڈے تلے ساٹھ ہزارکا لشکرمرنے مارنے کیلئے ایک اشارے کا منتظر تھا۔ یہاں پرحضرت امام حسن کا وہ تاریخی،غیرسیاسی کردارسامنے نظرآتا ہے جس کے متعلق عام قاری توکجا ہمارے دانشوراورعلماء حضرات بھی بے خبر نظر آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ امام حسن کا یہ عظیم کردارلوگوں کے سامنے ابھی تک کھل کر نہیں آسکا جس طرح امام حسین کی شہادت کا واقعہ ہے۔

حضرت حسن نے اپنے والد کے پانچ سالہ خلافت کے پرآشوب زمانے میں مسلمانوں کوخود بھائیوں کی تلواروں سے ذبح ہوتے دیکھا تھا اس لئے باہمی خون خرابہ اورنہ ختم ہونے والے سلسلے کو ہمہشہ کیلئے ختم کرنے کیلئے خود میدان سے ہٹ گئے اور خلافت کاعہدہ حضرت امیرمعاویہ کے حوالے کردیا اگرچہ حضرت حسن حق پر تھے اورامت کے جائز خلیفہ تھے۔

اس کے بعد دوعشرے (٤١ھ تا٦٠ھ) تک حالات پرسکون رہے اوراسلامی سلطنت کی سرحدوں میں بھی خاصی توسیع ہوئی ۔امیر معاویہ کے انتقال (رجب٦٠ھ) تک حالات بڑے پرسکون رہے لیکن جب خلافت کا مسئلہ دوبارہ کھڑا ہوا توامام حسین جو اپنے باپ کی شہادت اور بھائی کی خلافت سے دستبرداری سے خوش نہ تھے،انہوں نے یزید کی خلافت سے اسی طرح انکار کیا جس طرح اس سے پہلے حضرت معاویہ نے ان کے والد محترم حضرت علی کی خلافت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہیں سے امام حسین (٤ھ تا٦١ھ) کا وہ کردار شروع ہوتا ہے جس کی یاد اب یوم عاشورہ کومنائی جاتی ہے۔

عتبہ بن ابی سفیان نے جب مدینے میں یزید بن معاویہ کیلئے لوگوں سے بیعت لینے کاسلسلہ شروع کیا توامام حسین نے معذوری کا اظہار کر دیا اور خاموشی کے ساتھ اپنے اہل وعیال کو لیکر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ یہاں آپ کی آمد سے قبل مکہ کے لوگ عبداللہ بن زبیر پر بیعت کر چکے تھے اور یہ صورتحال حضرت حسین کو قابل قبول نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت حسین اورآپ کے اہل خانہ ان کے پیچھے نمازنہیں پڑھتے تھے جوعملاً اس وقت مکہ کے حاکم تھے۔ شہادت حضرت عثمان کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کیلئے مکہ ومدینہ کے حالات سازگارنہیں تھے جس کی بناء پراسلامی ریاست کا دارلخلافہ ٣٦ھ میں مدینہ سے کوفہ منتقل ہو گیا تھا۔ اس طرح امام حسن نے بھی خلافت سے دستبرداری کے بعد٤١ھ میں کوفہ کوخیرباد کہہ دیا تھا اور مدینہ میں مستقل رہائش اختیار کر لی تھی۔ اب جب یزید کوخلافت ملی تواہل کوفہ کی محبت اہل بیت کیلئے جوش میں آئی اورانہوں نے خطوط کے ذریعے امام حسین کوخلافت کیلئے مجبورکرنا شروع کر دیا۔امام حسن اہل کوفہ کی نفسیات اور صورتحال کی نزاکت کو اچھی  طرح جان چکے تھے ، اسی لئے اپنے بھائی کو وصیت میں اہل کوفہ کے بارے میں اپنی آراء سے آگاہ کر چکے تھے کہ:

’’کوفہ والوں کے فریب میں مت آنا اور میں اچھی طرح جان چکا ہوں کہ نبوت اورخلافت دونوں ہمارے خاندان میں جمع نہیں ہوسکتیں اس لئے تمہارے حق میں بہتر یہی ہے کہ تم اس معاملے میں خاموش رہو”۔

لیکن حضرت حسین اپنے لئے ایک کردارکاانتخاب کر چکے تھے وہ تھا ”خلافت منہاج نبوت کا تحفظ” اور اس ادارے کے انہدام سے اہل اسلام کوجن مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اس سے بھی امت مسلمہ کے اعصاب پربہت برا اثر پڑ رہا تھا۔ ان کے سامنے شہادتِ عثمان کا واقعہ رونما ہوا،ان شورشوں نے حضرت حسین کے اعصاب پربھی بہت گہر ااثر چھوڑا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ مختلف فتنوں نے پہلے اموی خلیفہ کے زمانے میں قصرِ خلافت کوبری طرح اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔ حضرت عثمان نے بھی مسلمانوں کو باہم خانہ جنگی سے بچانے کیلئے اپنی جان قربان کردی حالانکہ اس وقت مدینے کے وفادار مسلمانوں کی جماعت آپ کے مکان پر موجود تھی اور بنوہاشم کی تو ایک بڑی جماعت ان کی معاون ومددگاربھی تھی لیکن حضرت عثمان نے ان سب کو قسم دلا کر اپنے مسلمان بھائیوں پر حملہ سے روک رکھا تھا اور اپنے گھر بیٹھ کرقرآن کریم کی تلاوت فرماتے رہے۔ دراصل وہ بھی شریعت  کے حکم کی تعمیل کررہے تھے کہ:

وَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ الّذِینَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلَا تَعْتَدُواِ  ِنّ الْلّہَ لَایُحِبُّ الْمُعْتَد ِینَ اور اللہ کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑیں اور زیادتی نہ کرو بے شک اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(سورة بقرہ۔١٩٠)

”اپنی طرف سے جارحیت کاآغاز بندۂ مومن کیلئے کسی طور پر بھی جائزنہیں کہ مسلمان دعوت ونصیحت کے ذریعے کوئی خیرکی راہ نکالتا ہے نہ کہ قتال کا راستہ اختیار کرکے،اس کے بعد اگردوسروں کی طرف سے جارحیت کا آغاز ہو تو دوصورتیں ہیں،جارحیت کاآغازاگرکفارکی طرف سے ہوتوپھربھی مخصوص شرائط کے تحت اس کے دفاع کاحکم ہے’

لَئِنْ بَسَطتَ اِلَیَّ یَدَ کَ لِتَقْتَلنِیْ مَاَ نَا بِبَاسِطِِِ یَدِیْ اِلَیْکَ لاَِْقتُلَکَ ۖ اِنِّیِ اَخَافُ اَللَّہُ رَبِِّ الْعَالَمِینْ لیکن اگرجارحیت کا آغاز اگر مسلمان کی طرف سے ہوتوایسی صورت میں حکم یہ ہے کہ دفاع کے طورپربھی اپنے دینی بھائی پروارنہ کیاجائے۔” اگرتونے مجھے مارنے کیلئے اپنے ہاتھ کوبڑھایاتومیں تجھے مارنے کیلئے اپنے ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا”(سورة المائدہ۔٢٨)

ابوموسیٰ سے روایت ہے کہ رسول اکرمۖ نے آنے والے فتنے سے جب ڈرایاتولوگوں نے پوچھاکہ ہم کوآ پ ۖکاکیاحکم ہے؟توآپۖ نے فرمایا:

’’اس میں اپنی کمانوں کوتوڑڈالو’اپنی تانت کوکاٹ ڈالو’اپنی تلواروں کوپتھرپرپٹک دو’اپنے گھروں کے اندربیٹھے رہو’ اگرتم کومارنے کیلئے کوئی تمہارے گھرمیں گھس آئے توتم آدم علیہ السلام کے دولڑکوں میں سے بہترلڑکابنو’قتل ہو جاؤمگرقتل نہ کرو ”۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت عثمان بن عفان نے اصول شریعت کی اتنی بڑی عملی مثال قائم کردی اوروہ حضرت آدم علیہ السلام کے بہتر بیٹابن گئے لیکن حضرت امام حسین کے سامنے اس عظیم المرتبت کارنامے کے بعدآنے والے واقعات نے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح کردی کہ اگر حضرت عثمان ”خلافت علیٰ منہاج نبوت ” کا دفاع کرتے (اوراس ادارہ خلافت کی حفاظت کی خاطرچندہزارانسان ماردیئے جاتے تویقیناً خلافت کاادارہ انتشاراورانارکی سے محفوظ رہتااورحضرت علی جوساری توانائیوں کے باوجوداپنے دورخلافت کے پانچ سال ان شورشوں اورباہمی جنگ وجدل پرقابونہ پاسکے اوربالآخران منہ زورفتنوں نے ان کی جان لے لی) توآج خلافت کیلئے مسلمانوں میں آپس میں ایسی خونریزی نہ ہوتی اورتاریخ اسلام میں جنگ جمل اورجنگ صفین اوربعدکے سانحات کیلئے کوئی جگہ نہ ہوتی۔

اسی طرح حضرت حسن کومسلمانوں نے اپنی آزاد مرضی سے بلاجبرواکراہ خلیفہ مقررکیاتھا’وہ نہ صرف برحق خلیفہ تھے بلکہ ان کی خلافت بھی منہاج نبوت پرقائم تھی ‘ ان کے مقابلے میں حضرت امیرمعاویہ کادعویٰ خلافت ویسا ہی بلاجوازتھاجیساحضرت علی کے مقابلے میں ، کیونکہ خلیفہ کے انتخابات اورتقررکااختیاراہل شوریٰ یعنی اہل حجازکے جلیل القدرصحابہ رضوان علیہم کوحاصل تھا۔ حضرت امیرمعاویہ کاشمارطلقاء میں تھا’اس لئے طلقاء کوخلافت کے تقررمیں کوئی عمل دخل حاصل نہ تھا۔حضرت معاویہ کا حضرت علی کے خلاف محاذآرائی ‘تصادم’اطاعت سے انکار اوربغاوت کا کوئی جوازنہ تھا۔وہ مرکزی حکومت میں بطورماتحت خدمات انجام دے رہے تھے۔ان کاشوریٰ سے کوئی تعلق نہ تھا’اس طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی خلیفہ برحق تھے۔وہ خلافت کے ادارے کے محافظ تھے ۔ اس ادارے کے تحفظ اوردفاع کیلئے جوجنگیں لڑیں ان میں حضرت علی  حق پرتھے’اوران جنگوں کے نتیجے میں جوخون خرابہ ہوااس کی بھی ذمہ داری حضرت علی پرہرگز عائد نہیں ہوتی۔

حضرت حسین کواس بات کابخوبی علم تھا کہ حضرت معاویہ کے اس طرزِعمل نے حضرت حسن کوبھی اسی دوراہے پرکھڑاکردیاتھا جہاں وہ آج ہیں’یاتووہ خلافت کے ادارے کاتحفظ فرماتے یامسلمانوں کوخانہ جنگی کے منہ زورفتنے سے بچالیں۔حضرت حسن نے امن پسندی کاراستہ اختیارکرتے ہوئے مسلمانوں کوتوخانہ جنگی سے بچالیالیکن انہیں ”خلافت علیٰ منہاج نبوت ” کے انہدام کاصدمہ یقیناً برداشت کرناپڑا۔اس حکمت عملی نے امت سے بڑی بھاری قیمت وصول کی اوربعد میں حضرت حسین اوراہل حجازکوبھی اس کاخمیازہ بھگتناپڑا۔ حضرت حسین نے اپنے والد گرامی حضرت علی کوبھی خلافت کے ادارے کی حفاظت کی خاطر شہیدہوتے دیکھاتھا۔یہ الگ بات ہے کہ حضرت حسن نے ان تمام حالات کاعملی مشاہدہ کرتے ہوئے اپنے لئے غیرسیاسی طریق کارکاانتخاب کیا’اس پرنہ صرف عمل کیابلکہ اپنے بھائی کوبھی اس کی وصیت کی لیکن حضرت حسین نے اپنے لئے سیاسی طریق کارکاراستہ منتخب کرکے اپنے والدحضرت علی کی سنت پر عمل کیا۔

یہاں امام حسن کے غیرسیاسی طریق کارکی وضاحت ازحدضروری ہے۔اس کیلئے پہلے ہمیں مستنداحادیث اوراسلامی تاریخ کی بے شمار مستند کتابوں سے مدد لینا ہوگی۔ یزید کے مقابلے میں جوصورتحال حضرت حسین کو پیش آئی اس سے کہیں زیادہ مشکل حضرت حسن کوحضرت معاویہ کے مقابلے میں پیش آچکی تھی مگرآپ نے اس سے مختلف ردعمل کااظہارکیاجس کانمونہ ہمیں حضرت حسین  کے آخری خطبہ سے بھی ملتاہے جہاں حضرت حسین نے بھی جنگ وجدل سے بچنے کیلئے تین شرائظ پیش کی تھیں ۔(طبری جلد٤صفحہ ٣١٣(

احادیث کی کتب میں حسنین کے بارے میں بہت سے روائتیں ملتی ہیں جن میں حضرت حسین کیلئے زیادہ تر”محبت ” کا ذکر ہے جونواسہ ہونے کی حیثیت سے آپ کیلئے بالکل فطری ہے اوردوسری طرف امام حسن کے بارے میں جوروایات نہ صرف سنداً زیادہ قوی ہیں بلکہ فطری محبت سے آگے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ مثلاً حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ:حسن بن علی سے زیادہ کوئی شخص نبی اکرمۖ سے مشابہ نہ تھا” ۔طبعی مشابہت کے علاوہ یہ ایک واقعہ بھی ہے کہ صحیح روایات میں امام حسین کیلئے کوئی پیشگی کردار کا کوئی ذکر نہیں ملتا اور دوسری طرف یہ ثابت ہے کہ نبی اکرمۖ نے امام حسن کے بارے میں ایک عظیم کردار کرنے کی پیشین گوئی ارشادفرمائی تھی ۔

حضرت ابوبکرصدیق فرماتے ہیں کہ ”میں نے رسول اکرمۖ کو منبر پر دیکھا جہاں حسن بن علی اآپ کے پہلومیں تھے۔ایک بار آپ ر ۖلوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اوردوسری بار ان کی طرف’اورفرماتے تھے یہ میرا لڑکا ہے ‘ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دوبڑے گروہوں میں صلح کروادے ۔(بخاری)

رسول کریم ۖ کی یہ پیش گوئی امام حسن کی زندگی میں حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی ۔حضرت امام حسن کی بیعت ٤٠ھ میں اس حال میں ہوئی کہ مسلمانوں کی باہمی لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ بنوامیہ اوربنوہاشم کی رقابت عروج پرتھی’نہ تویہ ایک دوسرے کوختم کرسکے تھے اورنہ ہی ہارماننے کوتیارتھے ۔حضرت حسن نے جب بیعت لی توآپ نے لوگوں سے یہ اقراربھی لیا کہ”میں جس سے جنگ کروں گا تم اس سے جنگ کروگے ‘جس سے میں صلح کروں گا تم اس سے صلح کروگے”۔اب حضرت حسن کی خلافت گویا حضرت معاویہ کیلئے نیا چیلنج تھی۔اس کے مقابلے کیلئے میدان میں جہاں حضرت معاویہ کاساٹھ ہزار کا لشکر دمشق سے چلتامدائن کے میدان میں پہنچاتھا وہاں امام حسن بھی اتنی ہی قوت کا لشکر کوفہ سے لیکر مقابلے میں آن کھڑے ہوئے تھے۔ گویاپہاڑوں کالشکرآمنے سامنے تھابلکہ امام حسن کے سپاہی توحضرت علی کے ہاتھ پرموت کی بیعت بھی کرچکے تھے  اورلڑنے مرنے سے کم کسی چیزپربالکل آمادہ نہ تھے۔

مدائن کے میدان میں معاویہ بن سفیان نے امام حسن بن علی کویہ پیغام بھیجا کہ”جنگ سے بہترصلح ہے’مناسب یہ ہے کہ آپ مجھے خلیفہ تسلیم کرلیں اورمیرے ہاتھ پربیعت کرلیں”۔امام حسن نے غوروفکرکے بعداس پیشکش کو منظورفرمالیااورخلافت امیرمعاویہ کے سپردکردی حالانکہ امام حسن کے پرجوش حامیوں کویہ ”بات” قبول نہ تھی۔ آپ نے ایک تاریخی فقرے میں اپناجواب دیا:خلافت اگرمعاویہ کاحق تھاتوان کوپہنچ گیا’اگرمیراحق تھاتومیں نے ان کوبخش دیا”۔

اس صلح کے بعد حضرت امیرمعاویہ نے حضرت امام حسن کیلئے ایک لاکھ درہم سالانہ وظیفہ مقررکردیا’’حافظ ذہبی١لعبرجلد١صفحہ ٤٨

اس طرح امام حسن کے پیچھے ہٹ جانے سے مسلمانوں کاباہمی اختلاف باہمی اتفاق میں تبدیل ہوگیااورمدائن کا میدان اسلامی تاریخ میں جمل وصفین کے بعد تیسری خونریزی  کے عنوان سے بچ گیا اورمسلمانوں کی وہ قوت جو خلیفہ ثالث کے زمانے سے باہمی جنگ وجدل میں مصروف تھی اورجن کی وجہ سے اسلامی فتوحات کاسلسلہ بھی ختم ہوچکاتھا’اب دوبارہ اسلامی فتوحات کی خبریں بہم پہنچارہا تھا اوراسلام کی اشاعت وتوسیع جوان خانہ جنگیوں کی وجہ سے رک گئی تھی ‘اس کابھی بند دروازہ جس نے کھولا وہ حضرت امام حسن ہی تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیچھے ہٹنا سب سے بڑی بہادری ہے ۔اگرچہ بہت کم لوگ ہیں جواس بہادری کیلئے اپنے آپ کوتیارکرسکیں’ بظاہر تو یہ میدان سے واپسی کا فیصلہ تھا’اس سے مسلمانوں کی قوت باہم مقابلہ آرائی سے بچ گئی اوراسی طاقت نے مسلمانوں کی فتوحات کاخارجی میدان میں سکہ بٹھادیا۔ اگراس وقت حضرت امام حسن خلافت پراصرارکرتے توعجب نہیں مسلمان پہلی صدی ہجری میں آپس کی خانہ جنگیوں میں برباد ہو جاتے اوراسلام جوآج ایک عالمگیرمذہب چین سے لیکر مراکش تک اپنی برکات سے ہمیں فیض یاب کررہا ہے اس کی شکل کچھ اور ہوتی توگویاغیرسرکاری طریق کار سے اختلاف کرنے کی ہمت پیدانہیں ہوتی کیونکہ بعد کے حالات نے حضرت حسن کے اس کردارکوبلاشبہ امت محمدیہۖ پر ایک گراں قدراحسان ثابت کیاہے۔

لیکن اس کے ساتھ حضرت حسین کے کردارپرنگاہ ڈالیں تو ان کے بھی طریق کارکوایسی تقویت ملتی ہے کہ جس نے ”خلافت علیٰ منہاج نبوت” کے تحفظ ‘دفاع اوراس کے احیاء کیلئے قربانیوں کی ایک ایسی پرعزم تاریخ رقم کی ہے جو قیامت تک مظلوموں کیلئے مشعلِ راہ ثابت ہوگی۔

حضرت امام حسین نے خلافت کے ادارے کوبچانے کیلئے کوفہ کے لوگوں کے سخت اصرارپراپنے چچازاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل کوکوفہ روانہ کیا’ گو حضرت مسلم بن عقیل اس منصوبے سے متفق نہ تھے تاہم حضرت حسین کے اصرارپر کوفہ چلے گئے۔تاریخی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تقریباً اٹھارہ ہزارآدمی ان کے ہاتھ پر بیعت ہوچکے تھے لیکن جب یزید کے حکم پر عبیداللہ بن زیاد نے حضرت مسلم بن عقیل اوران کے کوفی میزبان ہانی بن عروہ کومحل کی چھت پر کھڑا کر کے قتل کردیا توکوفہ والوں کو گویا یزید کا پہلا پیغام تھا کہ حضرت حسین کی بیعت کی قیمت کیا ہوگی۔اسی وقت کوفہ والے خاموش اپنے گھروں میں دبک گئے اورحضرت حسین جوکہ ان بے وفا لوگوں کی قیادت کیلئے آدھے سے زیادہ سفر طے کرچکے تھے ‘اپنے سفرسے بالکل واپس نہ لوٹے حالانکہ مکے میں تمام جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ علیہ اجمعین نے ان کواس سفر سے منع کیا تھا۔ عبداللہ بن عمر،عبداللہ بن عباس، عمروبن سعدبن العاص،عبدالرحمٰن بن حارث اور مکہ کے دوسرے بزرگوں نے شدت سے حضرت حسین کومنع فرمایا بلکہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے کہا کہ آپ کوفہ جانے کی بجائے مکہ کی حکومت قبول فرمائیں’ آپ ہاتھ بڑھائیں میں سب سے پہلے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں ۔عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب نے مدینہ سے خط لکھ کر بااصرار منع کیا لیکن حضرت امام حسین کی اولوالعزم طبیعت اس پرکسی طورراضی نہ ہوئی ‘حتیٰ کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس کی اس آخری بات کوبھی ماننے سے انکارکردیا کہ عورتوں اوربچوں کومکہ میں چھوڑکرسفر کریں یاکم ازکم حج کے بعد روانہ ہوں جس میں صرف چنددن باقی ہیں۔

امام حسین ذوالحج٦٠ھ کے پہلے ہفتے میں کوفہ کے راستے میں حضرت عبداللہ بن مطیہ سے جب ملے توانہوں نے بصداحترام حضرت امام حسین سے کہا:”میں آپ کوقسم دلاتاہوں کہ آپ واپس مکہ تشریف لے جائیں’اگرآپ بنو امیہ سے خلافت چھیننے کی کوشش کریں گے تووہ ضرورآپ کوقتل کرڈالیں گے اورپھرہر ایک ہاشمی ہرایک عرب اورہرایک مسلمان کے قتل پردلیر ہوجائیں گے”۔ لیکن حضرت امام حسین  نے واضح الفاظ میں اپنے رفقاء کوبتا دیا تھا کہ ان کے پیش نظر ”خلافت علیٰ منہاج نبوت”کے احیاء کے سوا کچھ نہیں۔ اسلامی نظام اطاعت میں خلافت کی جو اہمیت ہے اس سے حضرت حسین پوری طرح باخبر تھے۔ اسلامی نظام اطاعت کے استحکام کیلئے اولی الامرکے ادارہ کوجس اندازمیں رسول اکرمۖ اورخلفائے راشدین نے قائم فرمایاتھا’اس کے تحفظ اوردفاع کیلئے حضوراکرمۖ نے جوتاکید فرمائی تھی وہ بھی حضرت حسین کے علم میں تھی۔ معاویہ بن ابی سفیان کے مقررکردہ خلیفہ یزید بن معاویہ نے اس ادارہ کی تعظیم اورتقدس کوختم کرکے رکھ دیا تھا۔اس ادارہ کے انہدام سے اسلامی معاشرہ کودینی اورسیاسی نقصان جوپہنچ رہاتھااس کودیکھ کرحضرت حسین جیسی شخصیت کا بیٹھ جانا بڑا مشکل تھا۔

تاہم آخر وقت میں کربلا کے میدان میں حضرت حسین کوصورتحال کااندازہ ہوگیاتھا۔ حضرت مسلم بن عقیل کی شہادت’کوفہ کے لوگوں کی بے وفائی ‘یزید کے لشکر جرار کے مقابلے میں آپ کا مختصر قافلہ  بظاہر پہاڑ اور چیونٹی کا مقابلہ لیکن حضرت حسین  نہائت بہادر’جرأت مند اورانتہائی شریف النفس تھے۔ وہ موت سے بالکل خوفزدہ نہیں تھے مگراپنے ساتھ نیزعورتوں اوربچوں کیلئے اپنے دل میں جذبہ رحم کی پیدائش کو روکنا ان کیلئے ممکن نہ تھا چنانچہ آخری دن محرم الحرام کی دس تاریخ ٦١ھ کربلا کے میدان میں یزیدکی فوج کے سامنے جوتقریرفرمائی وہ فصاحت وبلاغت کا بے نظیر شاہکارہے ۔آپ نے دیگرباتوں کے علاوہ فرمایا:

’’عیسیٰ کاگدھا اگر باقی ہوتا توتمام عیسائی قوم قیامت تک اس کی پرورش کرتی ‘تم کیسے مسلمان اورامتی ہوکہ نبیۖ کے نواسے کوقتل کرناچاہتے ہو‘‘

دراصل کوئی دوسری قسم کامسئلہ ہوتا تو کوفی مسلمان شائد عیسائیوں سے چارہاتھ آگے ہوتے لیکن یہاں یزید کے لشکر کے سامنے نواسہ رسولۖ ان کے سیاسی حریف کے طورپرکھڑے تھے اورسیاسی حریف کو نہ مسلمان بخشنے کو تیار ہوتے  ہیں نہ عیسائی ۔ وہی یزید جس نے ٦٤ھ میں مدینہ پرچڑھائی کی تھی اس نے مسلم بن عتبہ کو تاکیدی حکم دیا تھا کہ حضرت امام حسین کے صاحبزادے حضرت زین العابدین کا پورا پورا خیال رکھنا کیونکہ وہ مدینے میں سیاسی زندگی سے الگ ہوکرمدینہ کے نواح میں الگ تھلگ زندگی گزار رہے تھے کیونکہ یزید نے اپنے باپ  سے سیاست کا ایک اصول ورثے میں جو لیا تھااس پربڑی سختی سے کاربند تھا:”میں لوگوں اوران کی زبانوں کے درمیان اس وقت تک حائل نہیں ہوتا جب تک وہ ہمارے اورہماری سلطنت کے درمیان حائل نہ ہوں”۔(ابن تاثیرکامل جلد٤صفحہ٥)

چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ آخروقت میں حضرت حسین یزید سے صلح کیلئے راضی ہوگئے تھے ۔انہوں نے یزید کے نمائندے عبیداللہ بن زیاد کے سامنے تجاویز پیش کیں:

١۔میں مکہ واپس چلا جاؤں اور وہاں خاموشی کے ساتھ عبادت الٰہی میں مشغول ہوجاؤں۔

٢۔مجھے کسی سرحد کی طرف نکل جانے دو کہ وہاں کفار سے لڑتا ہوا شہید ہو جاؤں۔

حضرت حسین کے رویے میں تبدیلی سے یزید کی فوجوں میں خوشی کی لہردوڑگئی’ اگرچہ کربلا کے میدان میں وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء تھے ‘اس کے باوجود نواسۂ رسول کے احترام کا یہ حال تھا کہ دونوں طرف کے لوگ مل کرنمازادا کرتے تھے اوراکثرحضرت حسین ہی کی اقتداء میں نمازادا کرتے تھے ۔

عبیداللہ بن زیاد کے پاس جب یہ پیغام پہنچاتووہ بھی بغیرلڑائی کے اس عمدہ حل پربہت خوش ہوا لیکن اس کامشیرشمرذی الجوشن جوکہ حضرت حسین کا پھوپھا اور انتہائی بری طبیعت کامالک تھا’اس نے عین وقت پر عبیداللہ بن زیاد کا ذہن پھیر دیا۔اس نے حضرت حسین کے لوٹنے کے سارے راستے بند کردیئے اور بالآخر کربلا کا وہ معرکہ جس میں عمروبن سعد نے پہل کرکے حضرت حسین کے قافلے پرپہلا تیر پھینک کراس کا آغاز کیا تھاجس کا انجام حضرت حسین کی شہادت پرمنتج ہوا۔ یہاں قابل ذکربات یہ ہے کہ عمروبن سعد حضرت حسین کارشتے میں ماموں اورشمرذی الجوشن پھوپھا تھا۔

تاریخ کے ان دوکرداروں پر ملت اسلامیہ قیامت تک جتنا بھی فخرکرے کم ہے۔گوحضرت حسین نے بھی آخری وقت میں حضرت حسن کے غیرسیاسی طریقہ کار کوبھی عمل میں لانے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ کوحضرت حسین سے ”خلافت علیٰ منہاج نبوت” کے تحفظ اوردفاع کا کام لے کر ان سے بے مثال قربانی لینا مقصود تھی اوران کی شہادت سے امت مسلمہ تک یہ پیغام پہنچانا مقصود تھا کہ حالات کیسے ہی پرآشوب اوردگرگوں ہوں ‘اسلامی نظام حکومت ‘اسلامی نظام اطاعت کے قیام ونفوذ جوکہ ایمان کے اوّلین تقاضوں میں سرفہرست ہیں کی کوشش ہروقت ‘ہرزمانے میں جاری رکھنی چاہئے جب تک خلافت کے ادارہ کو مکمل اس کی اصلی شکل میں بحال نہ کر لیا جائے ۔اس کے علاوہ بھی ان کرداروں میں بے شماردوسرے اسباق ہمارے لئے موجودہیں’صرف شرط یہ ہے کہ ہم خود مخلص ہوں۔

خوشا وہ آبلہ پا کارواں اہل جنوں  لٹا گیا وہ بہاروں پہ اپنی سرخیٔ خوں

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top