Posted date: June 05, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
’بھارت ‘ جس دوراہے پر آکھڑا ہوا ہے اب نئی دہلی کے پاس مستقبل کے صر ف دوراستے کٹتے ہیں پہلا راستہ تو وہ وہی ہے جس پر بھارت تقسیمِ ہندکے بعد سے آج تک چلتا آتا رہا ’جمہوریت ‘ بلکہ’ سوشلسٹ جمہوریت‘ جسے دنیا ’عظیم جمہوریت ‘ بھی کہتی رہی ‘ حال میں ’نریندرامودی ‘کی کامیابی کی شکل میں جو جمہوریت سامنے آئی، یہ کسی بھی اعتبار سے اور کسی لحاظ سے ’عوامی سوشلسٹ جمہوریت ‘ نہیں مانی جاسکتی یہ وہ دوسرا راستہ ہے جس اب بھارتی جمہوریت کی ’ہندوتوا ‘ ایکسرپس ’مودی یاترا‘ کے نام پر چل پڑی ہے، بھارتی جمہوریت نے اپنا رہاسہا پژمردہ ’سیکولر ‘ کے لبادہ کو اتار پھینکا بھارت میں اب ’عوام کے لئے عوام کی حکومت ‘ ایک ایسا خواب کا روپ دھار چکی ہے نجانے کب بھارتیوں کو حقیقی ’عوامی جمہوریت ‘ کا سورج دیکھنا نصیب ہوگا ؟بھارتی جمہوریت کا اصل سیاسی’ روب د ا ب ‘ جنونی ہندو قوم پرستی کے امڈٹے ہوئے طوفان کے باد وباراں نے اپنی 66 سالہ جڑوں سمیت یوں گم کردیا جیسے کبھی بھارت میں ’سیکولر جمہوریت ‘ نام کی کوئی چیز پائی ہی نہیں جاتی تھی، گجرات میں نریندرا مودی نے 2002 میں مسلمانوں کا جس بیدردی کے ساتھ قتلِ عام میں حصہ لیا، نسلِ انسانی کی تاریخ میں اُس کے یہ بہیمانہ مظالم و ستم ہمیشہ ہمیشہ کے ہر عہد کے انسان نواز وں کو خون کے آنسو رلاتے رہیں گے بھارت میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کے نتائج نے بھارت کے مستقبل پر خوف ودہشت کی پرچھائیاں تان دی ہیں، چونکہ یہ انتخابات ہوئے ہی بھارت بھر میں ’ہندوراج پاٹ ‘ کے قیام کے نعروں میں جیتے گئے، بھارتی سول سوسائٹی کو یقیناًسانپ سونگھ گیا ہوگا چانکیائی مکروفریب کی یہ کیسی چال چلی گئی نریندرا مودی ہو یا ایل کے ایڈوانی؟ دونوں ہی بی جے پی کے لیڈر ‘ پھر ایل کے ایڈوانی کو کیوں آگے نہیں لایا گیا جو عمر اور تجربہ میں کم ازکم نریندرا مودی سے تو بہتر ہی مانے جاتے ہیں اُنہیں پیچھے کیوں رکھا گیا؟ بھارت جیسی عظیم ایٹمی یونین کا وزیر اعظم بننا کیا اُن کا خواب نہیں تھا ؟ہاں فرق ہے اِن دونوں میں کہ ایل کے ایڈوانی کو نریندرا مودی پر اِس وجہ سے فوقیت ملی وہ ’بچارے ‘ فرزند سرزمین ‘ نہیں تھے ’سن آف سوائل ‘ نہیں تھے وہ تقیسمِ ہند سے قبل پاکستان کے ہر حیدرآباد میں پیدا ہوئے یعنی یہ سب کچھ تک چھان پھٹک کی گئی یاد ہو گا آپ کو ‘ جب کانگریس آئی کی صدر سونیا گاندھی کی سربراہی میں آج سے دس برس قبل کانگریس نے الیکشن سوئپ کیا تھا اور سونیا جی کے وزیر اعظم بننے کی باتیں عام ہوئیں تو ’شمسا سوراج ‘ نامی ایک رکنِ پارلیمنٹ نے دھمکی دے ڈالی تھی کہ ایک ’بے دیسی خاتون ‘ کو اگر بھارت کا وزیر اعظم بنایا گیا تو وہ احتجاجاً اپنا سر منڈوا کر بھارتی پارلیمنٹ کے سامنے بیٹھ جائیں گی بھارت بھر کے سیاست دان دم بخود ہوگئے، یوں منموہن سنگھ دوبار بھارت کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے آج کے بھارت کو اب کوئی کیسے ’شائن انڈیا ‘ کہہ سکتا ہے ساری ’شائن ‘ ہوا ہوگئی بھارت کی سیاسی جمہوریت ‘ روشن خیال جمہوریت نہ سیاسی رہی نہ روشن خیال معاشرے کا وہ سسٹم برقرار رہا جسے حقیقی جمہوریت کہا جاتا ہے نریندرا مودی جیسوں کی جنونی ہندوتوا کی سیاست کے ابھرنے سے بھارت کئی قسموں کی بد قسمتیوں کا شکار ہو گیا بھارت کے پڑوسی ممالک میں ’ہندوتوائی جمہوریت ‘ کے سب سے زیادہ بُرے اور نہایت مضر اثرات بھارتی مسلمانوں پر جو پڑنے ہیں وہ اپنی جگہ، مگر‘ پاکستان اور بھارت کے آئے روز کے تناؤ پکڑتے تعلقات کے ماضی وحال کو مدِ نظر رکھ کر اگر آج کی نئی دہلی سرکار کا موزانہ کیا جائے تو پاکستان کو بھارت کے ساتھ اب پہلے سے زیادہ نہایت سنجیدہ ہو کر اپنی حکمت عملیاں طے کرنا پڑیں گی اور یہ ہی نہیں بلکہ کئی قسم کے گوناگوں ‘ پیچیدہ اور متعدد گنجلک نوع کے قومی سلامتی کے مسائل سے نمٹنے کے لئے خالص ’پاکستانیت ‘ کی بقاء و اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے جلد بازی میں فیصلے کرنے کی بجائے ایسی قومی حکمتِ عملی کا فی الفور اعلان کردینا چاہیئے تاکہ فریقِ مخالف نئی دہلی ہمیں کوئی فریب دھوکہ نہ دے سکے بین السطو ذکر کیا گیا ’’شمسا سورج ‘نامی ایک انتہائی بدبودار متعصب ہندو رکن پارلیمنٹ کا ‘ یہ خاتو ن ریندرا مودی کابینہ میں وزیر خارجہ کا اہم قلمدان سنبھال چکی ہے،جنونی ہندو جذباتی پرستی کی تیز رفتار رُو میں نریندرا مودی کی نئی ابینہمیں اہم وزارتیں تنگ نظر اور پاکستان دشمنی میں خالصتاً ’باریک پیاز ‘ کترنے کے گھٹیا عداوتی ماہرین اپنی کمر کس کر میدان میں اترے نظر آتے ہیں، ہمارے ہاں اِس کا کوئی موثر توڑ ہمیں فی الحال نظر نہیں آرہا اگر ہم غلط نہیں تو مگر ہمیں تاحال علم نہیں کہ گزشتہ ہفتہ نئی دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کو ’اسپیشل سیل دہلی پولیس ‘ کے اُس مبینہ خط کا اسلام آباد والوں نے کوئی ’شٹ اَپ ‘ کال دیاہے یا نہیں؟
یہ خط پاکستانی عوام کی اعلاع کے لئے ہی جاری کیا بھی یا نہیں ؟ بھارتی سرکار نے اِس خط کا مناسب دینا سمجھا ہے یا نہیں ؟ یہ خط کیا تھا آپ نے نہیں پڑھا ہے تو پڑھ لیجئے ’دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کو دھمکی آمیز خط بھیجا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہم دہلی میں پاکستانی ایمبسی کو بموں سے اڑا دیں گے پاکستانی سفارتکاروں کو ہلاک کردیں گے کیونکہ سفارت خانے نے ہماری فیملی کے کارندوں کو ویزہ دینے سے انکار کردیاہے خط لکھنے والے نے اپنا نام کرم ویر سنگھ ’سپیشل سیل دہلی پولیس ‘لکھا ہے خط میں لکھا گیا ہے کہ ’آپ نائین الیون کو بھول جائیں گے ہمارا کوئی بال بیکا نہیں کرسکے گا جیسے سمجھوتہ ٹرین میں پاکستانیوں کو زندہ جلانے کے بعد کچھ نہیں ہوسکا ہم پاکستان کے ہی بچوں کو انسانی بم میں بدل کر آپ کی معیشت اور ملک کا وہ حشر کریں گے جسے آپ ہمیشہ یاد رکھیں گے آپ کو ہماری طرف سے پہنچنے والا معاشی ‘ معاشرتی اور ذہنی خسارہ کبھی بھی اِس کرب سے نکلنے نہیں دے گا ہماری نئی حکومت کا واحد ایجنڈا پاکستان کو سبق سکھانا ہے‘بھارت میں بڑھتی ہوئی پاکستان اور مسلم دشمنی کی ’ہندوتوا‘ کی یہ تحریک پہلے سے زیادہ خطرناک رخ اختیار کرچکی ہے بھارت کے نئے وزیراعظم نریندر مودی نے بھارتی انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ اجیت کمار ڈوول کو اپنا نیا مشیر برائے قومی سلامتی مقرر کیا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے اُن میں پاکستان سے معاملات طے کرنے کا ’خصوصی‘ وسیع تجربہ ہے جبکہ بھارتی فوج کے سابق سربراہ جنرل وی کے سنگھ کو شمالی علاقوں کا وزیر مقرر کیا گیا ہے ، جس کا مقصد دیش کی سرحدوں سے پار بھارتی پوائٹ آف ویوو کی روشنی میں’ بہتر سے بہتر‘ خفیہ کار کردگی کو یقینی بنایا جاسکے‘دیش کی قومی سلامتی کے مشیر اور شمالی علاقوں کے لیے نئے وزیر کی تقرری سے بظاہر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ بھارت کا دو اہم ہمسایہ ملکوں چین اور پاکستان کے ساتھ سکیورٹی سے متعلق معاملات پر ہم نظر رکھیں گے موثق عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق یہ دونوں اعلیٰ عہدیدار براہ راست وزیراعظم نریندر مودی کی نگرانی میں کام کریں گے‘اجیت ڈوول ملک کے انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ رہ چکے ہیں ’اجیت ڈول‘ کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ 1980 کی دہائی میں اِنہوں نے ’گولڈ ن ٹمپل‘ میں سکھوں کے خلاف کھلے عام خون کی ہولی کھیلی تھی یقیناًوہ بھارتی قوتیں تذبذب اور اضطرابی کیفیتوں سے دوچار ہونگی اُن کا ضمیر آج کے بھارت کے ایوانوں کے مکینوں کو دیکھ کر افسوس اور یقینی ملامت کی تصویر بناہوا ہوگا جن کی ذمہ داری تھی کہ وہ کانگریسی قیادت کی کئی صدیوں کی سیاسی وسفارتی بدنیتوں پر اُنہیں وقتاً فوقتاً جھنجھوڑتی رہتیں تو آج نئی دہلی کے ایوانوں کی یہ دیدنی حالت نہیں ہوتی ۔