پاکستانی صحافت ۔پاکستان کی بقاء کی ضامن

 سیّد ناصررضا کاظمی
media

لامحالہ‘ بلا آخر ‘ تمام تر ڈھونڈپھٹکار‘ تلخ وترش بحث وتکرار اور آپس کے سرپھٹول کے بعد حق وحقائق کی تلاش وجستجو میں سرگرداں یقیناًضرور رجوع کریں گے کہ دنیا کا اصل امن وقرار اگر ہمیں ملے تو کہاں ملے گا وہ جانتے ہیں کہ صرف ایک راہ ہے جو ہمیں باہمی بھارے چارے اور باہمی اتحاد واتفاق کی روشنی سے ہدایت یافتہ کرسکتی ہے اور یہ ر صرف قرآنِ حکیم فرقانِ مجید کی طرف لیجانے والا صحیح راستہ ہے اللہ تعالیٰ پر غیر متزلزل اور پختہ یقین رکھنے والوں کے لئے سورہِٗ انفال میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’اور آپس میں نہ جھگڑو پس ساکھ کھوبیٹھو گے اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا اور صبر سے کام لیا کرو کہ خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ‘ اہلِ ایمان کے درمیان اختلافات اور نزع کی صورت میں مبتلا ہر ایک فریق کو تاکید سے اللہ تعالیٰ کی جانب سے اگر کوئی حکم باربار دیا گیا تو وہ حکم ’صبر ‘ کا حکم ہے پچھلی صدیوں کے ’لڑاکومسلمانوں‘ نے ’صبر اور برداشت کو ہمیشہ بلائے طاق رکھ کر صدیوں تک باہمی خونریزیوں میں اپنے ہی ایمانی بھائیوں کا بے دریغ قتلِ عام کیااور نہیں کام لیا تو ’صبر ‘ سے کام نہیں لیا ’صبر سے اپنے آپ کو وابسطہ نہیں کیا نتیجتاً دوسری قوموں کو اللہ تعالیٰ نے اُن پر حاکم بنادیا، جیسا کہ اُس کا واضح حکم قرآنِ مجید میں کئی مقامات ہمیں متنبہ کرتے ہوئے ملا ،اللہ تعالیٰ کی روشن اور واضح تعلیمات کے برخلاف چلنے والوں پر صدیوں تک مختلف شکلوں میں ’غلامی ‘ لادھ دی گئی، ذرا ہم اپنے موجودہ حالات کا ہی جائزہ لیں؟ مسلم اُمہ کن مشکلات و مصائب میں ازخود پھنسی ہوئی ہے جبکہ یہاں پاکستان میں کوئی دِن ایسا نہیں جاتا جب ہمارے ہاں کے بڑے شہروں میں مسلسل خوف ودہشت کی علامت میں گرفتار ہمارے اپنے پاکستانی ایک دوسرے سے باہم دست وگریباں نہیں ہوتے اب تو الہ ماشاء اللہ الیکٹرونک میڈیا نے کروڑوں پاکستانیوں کو ہمہ وقت چوکنا اور ہشیار رکھنے کا فریضہ از خود ہی ’زبردستی اور دھونس کے زور پر سنبھالا ہوا ہے، ایک کے بعد ایک نجی ٹی وی اپنی الگ الگ بریکنگ نیوز دینے میں ایک دوسرے پر حاوی ‘ملک کے آئینی مقتدر اداروں کے مابین ‘چاہے وہ عدالتِ عظمیٰ ہو یا پارلیمنٹ‘ آئی ایس آئی ہو یا ملکی افواج سے منسلک دیگر اہم ادارے الیکٹرونک میڈیا چلانے والوں کی دبی دبی سی یہ مذموم خواہش اب باشعور عوامی حلقوں میں مضحکہ خیز بحث بن چکی ہے کہ ہمارا نجی الیکٹرونک میں ملک میں کسی نہ کسی ’بحران ‘ کو تازہ کیئے رکھنے میں بعض اوقات بڑی غیر پیشہ ورانہ اور احمقانہ حرکات میں مبتلا نظرآیا زیادہ سے زیادہ پیسہ بنانے میں الگ ’جتا ‘ ہوا، قومی رجحانات کی نہ کوئی فکر و فاقہ ‘ ‘ قومی آرزوؤں ‘ قومی امنگوں اور پاکستان کی نظریاتی تشخص کا تحفظ وغیرہ جیسی اصطلاحات سے میڈیا کے شہرتِ یافتہ اینکر پرسنزیا اُن کے میڈیا ہاؤسنز کے مالکان اور پروڈیوسرز دورپرے کی بھی دلچسپی نہیں لیتے حیرت اور تعجب کامقام ملاحظہ فرمائیے مثلاً کسی ایک بڑے نجی ٹی وی پر اتفاقاً LOC لائن آف کنٹرول پر بھارتی اور پاکستانی فوجیوں کے درمیان فائرنگ کا کوئی بڑا واقعہ رونما ہوجائے یہ خبر آئی ایس پی آر کے ذریعے (پاکستانی فوج کے تعلقاتِ عامہ کا ادارہ) سے ملکی پریس کی اطلاعات کے لئے جاری ہوتو بات یہاں تک آپہنچی ہے کہ (وقت نیوز چینل اور روزنامہ نوائے وقت ) کے سوا چند ایک کو چھوڑ کر ایک بڑا میڈیا ہاؤس صرف آئی ایس پی آر کی جاری کردہ پریس ریلیز کافی تصور نہیں کرئے گا بلکہ وہ فوراً ’مواصلاتی رابطہ ‘ کے ذریعہ بھارت کے کسی اہم ریٹائرڈ جنرل یا کسی بھارتی صحافی کو بھارتی موقف جاننے کے لئے اپنی اسکرین پر فوراً لے آئے گا ‘یعنی پاکستانیوں کو بھارت کا موقف بھی سننا ہوگا ؟؟یہ تو رہی بیرونی اختلافات کی باتیں‘ ملک کی سیکورٹی کے آئینی ادارے افواجِ پاکستان کے مقتدر عہدیداروں کے خالص محکمانہ آرڈز ’بیانات ‘ کا کیسا کیسا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں یہ میڈیا اینکرپرسنز ، کیا یہ پریس مین فلموں کے ایکٹر زہیں ؟ اِن کی کوئی قومی ذمہ داری نہیں بنتی کہ پاکستان ایک خومختار آزاد ریاست کی حساسیت کو سمجھیں اِس ریاست کا ایک آئینی تشخص ہے بھارت کے ساتھ پاکستان کے کئی سنگین مسائل ایسے ہیں، جن پر دونوں پڑوسی ملکوں میں ماضی میں تین جنگیں لڑی جاچکی ہیں دنیائےِ اسلام میں اب صرف پاکستان وہ واحد ملک ہے، جس کے پاس دنیا کے سب سے بہترین ایٹمی اثاثے ہیں دنیا کی تسلیم شدہ مانی ہوئی منظم پیشہ ور جراّت مند فوج ہے ملک میں جمہوریت پنپ رہی ہے مضبوط ومستحکم ہورہی ہے، عدلیہ آزاد ہے ،عوام اپنے اہم قومی اداروں سے والہانہ عقیدت رکھتے ہیں، پریس آزاد ہے، پریس کی آزادی جمہوریت ‘ عدلیہ اور قومی سلامتی سے علیحدہ نہیں ہوا کرتی ‘ اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں کسی کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ ملکی آئین کے برخلاف عوامی توقعات کے برعکس ملک کے سماجی ومعاشرتی ڈھانچہ میں غلط فہمیاں پیدا کرئے، ناخواندہ عوامی حلقوں کو قومی قیادت کے خلاف بھڑکائے اُن پر اپنے
پروگراموں اور سیاسی ٹاک شوز میں تمسخرانہ جملے بازیاں کرئے، پر یس پر سب سے زیادہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ قومی و ملی ثقافتی رویوں کا امین ہو‘ خائن نہ ہو اِس میں کوئی شک نہیں کوئی دورائے نہیں کہ ’انحطاط پذیر اطلاعات ‘ کے اِس بدترین دور میں وہ حلقے تک اب یہ کہتے سنے گئے جن کا کبھی نوائے وقت گروپ آف پبلیکیشنز کے مجید نظامی صاحب سے کوئی تعلق نہیں رہا کہ اہلِ وطن اور اپنے وطن سے بے پناہ لگاؤ اور انسیت کا اظہار کرنے والوں کے لئے روزنامہ نوائے وقت اور وقت نیوز چینل کے روحِ رواں ڈاکٹر مجید نظامی اپنی بہترین مخلص پیشہ ورانہ ٹیم کے قائد کی حیثیت سے پاکستان اور بالخصوص بیرونِ دنیا میں پاکستان کی طاقت ور توانا آواز تسلیم کیئے جاتے ہیں، ڈاکٹر مجید نظامی پاکستانی صحافت کو مادر پدر آزادی کے چنگل سے بچانے کے عزم سے سرشار اپنی عمر کے اِس نازک حصے میں بھی جوانوں کا سا عزم رکھتے نظرآتے ہیں نظامی صاحب پاکستان کو عصرِ حاضر کے واقعات کی اسٹرٹیجک تشریح سے بہرمند کرنے پر بڑی جراّت مندی کا مظاہرہ کررہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ کون کون سے نامی گرامی صحافی اُن کی پیروی میں آگے بڑھتا ہے بقول مجید نظامی ‘ پاکستانی صحافت پر کل سے زیادہ آج بہت ہی نازک اور حساس اہم ذمہ داریاں آن پڑی ہیں مسلم دنیا کا یوں اچانک آپس میں بھڑ جانا ایک پڑوسی مسلم ملک ایران کا پاکستان کو کھلے عام دھمکیاں دینا اِن مسائل کا ’’کُل وقتی ‘‘ پاکستانی بن کر ہر ایک صحافی اور تجزیہ کار کو جائزہ لینا ہوگاقوم کی رہنمائی کرنی ہوگی ،اپنے حکمرانوں کو اپنے علاقہ میں حق وانصاف کا ساتھ دینے پر اُن کی ہمت افزائی کرنی ہوگی اب ہمیں اپنی قومی ثقافت پر پڑنے والے غیر نظریاتی مضر اثرات سے خود کو محفوظ کرنے کی طرف عملی قدم اُٹھانے ہونگے بھارت میں ’نریندر مودی ‘ جیسے انتہا پسند جنونی گروہوں کی اگر حکومت قائم ہوگئی تو یاد رکھئے ’ٹائمز آف انڈیا ‘ سب سے پہلے ’امن کی آشاء ‘ کے راگ الاپنے سے یکدم منکر ہوجائے گا، لہذاء اب ہر قسم کی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر پاکستانی صحافت کے وقار کو اجاگر کرنے کی ہر ممکن سعی وکوشش کو بروئے کار لایا جائے مجید نظامی اگر اِس نیک کام میں کوئی عملی قدم اُٹھائیں تو اُن کی دنیائےِ صحافت میں اداکی جانے والی قابلِ قدر پیشہ ورانہ رہنمائی سے فائدہ اُٹھانے کا یہ ہی بہترین وقت ہے ۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top